﷽
ترکوں کی تاریخ: خلافت عثمانیہ
ترک اول چھٹی صدی ؑیسویں میں روشناس ہوئے یہ ایک
خانہ بداوش قوم تھی جو مشروقی ایشیا اوروسط ایشیا میں گھومتی پھرتی تھی اور وقتا
فوقتا مغربی ایشیا اور مشرقی ایورپ کی آبادیوں پر حملہ آور ہو کر انیہں ویران کردیتی
تھی۔
چھٹی صدی عیسویں میں اس نے ایک زبردست سلطنت قائم
کرلی،جو منگولیا اور چین کی سرحد سے لے کر بحر اسود تک پھیلی ہوئی تھئ۔اس سلطنت کے
بانی کا نام چینی تاریخوں میں "تومین" اور ترکی کتب میں بومین درج ہے ۔تومین
سن 552 ؑ میں مر گیا ۔ پھر اس کے بھائی نے جس کا نام "استامی" تھا ،
مغرب میں فتوحات حاصل کی ۔دونوں بھائی الگ الگ حکومتوں پر حکم راں تھے ،احل چین ان
حکومتوں کو شمالی ترکوں کی سلطنت اور مغربی ترکوں کی سلطنت کہتے تھے، ساتویں صدی عیسویں
میں ان دونوں حکومتوں کو سلطنت چین کی اطاعت قبول کرنی پڑی، لیکن سن 682 ؑ میں
شمالی ترکوں نے چین کی فرما روائی سے آزاد ہوکر اپنی سابقہ خود مختاری حاصل کی
،"کتبات اور خان" جو منگولیا کے اورحان کے نام سے منسوب ہیں اور ترکی
زبان کی قدیم ترین یاد گار ہیں،ترکوں کی اسی شمالی سلطنت سے منسوب ہیں ۔یہ سلطنت
سن 744 ؑ عیسویں تک قائم رہی۔
جبکہ مغربی ترکوں میں "ترگیش" کا قبیلہ زیادہ
ممتاز تھا ،اس کے سرداروں نے پہلی ہجری "ساتویں صدی عیسویں " کے آخر میں
خاقان کا لقب اختیار کر لیا تھا ،لیکن سن 737 ؑ میں عربوں نے نصر بن سیار کی قیادت
میں "ترگیش "کی حکومت کا خاتمہ کردیا ۔
ترک اسلام میں:
ترکوں اور عربوں کے تعلقات پہلی صدی ہجری میں ولید
اول کے عہد خلافت سے شروع ہوئے ،اسی عہد میں قتیبہ بن مسلم نے پقیذ، بخارا،سمرقند،
خوارزم فرغانہ شاش "تاشقند" اور کاشغر کے ترکی کے علاقے فتح کر کے وہاں
اسلامی حکومت قائم لیکن ان فتوحات کا اثر ترکوں کے قبول اسلام پر بہت کم اثر پڑا
اور وہ بدستور بت پرستی کرتے رہے ،البتہ سمر قند میں قتیبہ کی بت شکنی نے بت پرستی
کا خاتمہ کر دیا ،جب قتیبہ وہاں پہنچا تواسے بہت سے بت خانے نظر آئے جن کی نسبت
عام طورپر یقین کیا جاتا تھا، کہ ان کی ساتھ بے ادبی کرنے والا فورا ہلاک ہو جاتا
تھا۔ قتیبہ نے ان بت خانوں کو آگ لگا دی مگر ان پر کچھ آنچ نہ ائی ، یہ دیکھ کر بت
پرستوں نے اسلام قبول کر لیا۔
حضرت عمر بن عبدل عزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد
خلافت سن 717 سے 720 ء میں اشاعت اسلام کی خاص طور پر کوشش کی تومن جملہ اور ممالک
کے انہوں نے ماورا نہر "ترک" بادشاہوں کو بھی اسلام کی دعوت دی اور ان میں
سے بعض اسلام لائے اور پھر عبدللہ بن معمر کو دعوت اسلام کے لئے ماورا النہر
"ترک" بھیجا اور وہاں کے بعض قبیلے مسلمان ہو گئے ۔اس کے بعد خلیفہ ہشام
کے عہد میں سن 743-764 ء میں ابو صیدا کی تبلیغ سے ترک کے لوگ کثرت سے اسلام میں
داخل ہوئے ۔
سمرقند اور بخارا وغیرہ سے جو ترکستان کے علاقے تھے
جزیہ اور خراج کی رقم بیت المال میں اتی تھی ، خراج کے سلسلے میں ترکستان سے لونڈیاں
اورغلام بھیجے جاتے تھے ،جو رفتہ رفتہ اسلام قبول کرنے لگے، پھر معتصم با اللہ کی
خلافت 833-842ء تک ترکوں میں اسلام کی اشاعت عام طور پر نہ ہو سکی۔سب سے پہلے خلیفہ
منصوربمطابق سن 754 ء-775 ء نے ترکوں کو فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا لیکن اس کے
عہد میں ان کی جماعت بہت قلیل تھی اور فوج اور حکومت میں صرف عربوں اور ایرانیوں
کا اقتدار تھا۔ہارون الرشید کے زمانہ خلافت میں اہل عرب اور اہل روس کے درمیان جو
حریفانہ کشمکش پیدا ہوئی،اس نے امین کے زوال کے ساتھ عربون قوت کا بھی خاتمہ کردیا
اور مامون کے دورعہد میں ،جس کی ماں ایرانی نسل تھی ایرانیوں کا زور بہت بڑھ گیا ،
اس کے بعد جب معتصم خلیفہ ہوا تو اس نے ایرانیوں کے اقتدار سے خائف ہو کر ترکوں سے
مدد حاصل کرنی چاہی اور چوں کہ اس کی ماں ترک تھی، اس لئے طبااسے ترکوں کی جانب میلان
بھی تھا ۔
چنانچہ اس نے ہزاروں ترک غلام خرید کر انہیں اسلامی
تعلیم اور فوجی تربیت دیاور اب فوج میں ترکوں کی تعداد اورقوت میں تیزی انے لگی،گبن
لکھتا ہے "معتصم جو اس مثال کا پہلا بانی ہے، پچاس ہزار سے زیادہ ترکوں کو
دارلخلافہ میں لا کر جمع کرنا شروع کیا ،اس نے ان کے لئے طلاء کا ریشمی لباس تجویز
کیا اور زریں ٹپکے وردی میں شامل کئے ، جس کیوجہ سے ترکی دستے دوسری فوجوں سے
ممتاز معلوم ہو تے تھے۔ہر سال ہزاروں ترک غلام پایہ تخت تک لائے جاتے تھے ان میں
سے کچھ محافظ شاہی دستے میں شامل کئے جاتے تھے اور باقی فوج میں بھرتی ہو تے تھے۔ جو
اپنی قابلیت میں زیادہ ممتاز ہو تے تھےوہ فوجوں کے سپہ سالار مقرر کئے جاتے تھے،جون
جوں ترکوں کی فوج میں قوت بڑھتی گئی ،عربی دستے کم ہوتے گئے،ترکوں کو چونکہ خلیفہ
کی خاص سرپرستی حاصل تھی ،اس لئے وہ کسئ کی پرواہ نہیں کرتے تھےاور بغداد کی سڑکوں
پر بے تحاشیہ گھوڑے دوڑاتے تھے جس سے اکثر عورتیں اور بچے ٹکرا کر زخمی ہو جاتے
تھےاور بعض اوقات مر بھی جاتے تھے،اسی لئے بغداد کے باشندے ان کے مظالم سے بہت تنگ
اگئے تھے جب معتصم کے پاس ان کی شکایتیں پہنچنے لگی تو اس نے فیصلہ کیا کہ ترکوں
کے لئے بغداد سے باہرایک چھاونی بنائی جائے،اس غرض کے لئے اس نے سامرہ کا مقام
پسند کیا جو بغداد سے تقریباً 60 کلو کے فاصلے پر قائم تھا ۔ یہ مقام اس کو اس قدر
پسند ایا کہ اس نے اس کا نام بدل کر سرمن رائے رکھ دیا ۔
فوجی بارکوں کے علاوہ خلیفہ اور وزراہ کے لیے بھی
عالی شان محل تیار کئے گیے اور چونکہ معتصم نے بغداد کا قیام ترک کرکے اپنی ترک
سپاہ کے ساتھ سامراہ میں رہنا شروع کردیا تھا اس لیئے رعایا کے ہرطبقے کے لوگ اس
نئے شہر میں آ کر اباد ہونے لگے۔اورتھوڑے ہی دنوں میں سامراہ ایک نہایت خوبصورت
شہر بن گیا سن 221 ھ سے لے کر 279 ھ مطابق 836ء تا 892 ء تک سات خلفاء کا
دارالسلطنت رہا،جب معتمد تخت پر بیٹھاتو اس نے سامراہ کو چھوڑ کر پھر بغداد کو پایا
تخت بنایا۔
معتصم کی ترک نوازی کی وجہ سے رفتہ رفتہ ترک شہزادے
اور امراء بھی ترکستان سے آکر سامراہ میں آباد ہونے لگے،جن میں بعض بت پرست اور
بعض اتش پرست تھے اور بعض مسلمان ہو گئے تھے،دارلخلافت میں رہنے کی بعد غیر مسلم
ترکوں میں بھی اسلام پھیلنے لگا اور اس تعلق سے ماوراءانہر کے ترکوں میں جو اپنے
وطن میں مقیم تھے،اسلام کی اشاعت ہونے لگی ترک سرداروں کے اسلام قبول کرلینے سے ان
کے جرگے اور قبیلے بھی مسلمان ہوتے گئے ، چوتھی صدی ہجری"ساتویں صدی عیسویں"میں
ترک بطور بکثرت سے اسلام قبول کرنے لگے سن 920ء میں دو لاکھ گھرانے مسلمان ہوئے ۔
ابن اثیر کا بیا ن ہے کہ ماوراالنہر کی ایک ترکی قوم کے دس ہزار گھرانے جو بلا
ساغون اور کاشغر کے نواح میں اسلامی علاقوں پر دھاوے مارا کرتے تھے دسمبر 1023 ء میں
اسلام لائے
خلیفہ معتصم کے بعد ترکوں کا اقتدار فوج وحکومت میں
روز بروز بڑھتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ خلیفہ بغداد کا عزل و نصب تمام تر
ان ہی کہ ہاتھ میں اگیا،نہ صرف تخت بلکہ خلیفہ کی زندگی بھی ان ہی کے رحم وکرم پر
تھی۔انہوں نے متعدد خلفاء کو زلیل کر کے تخت سے اتارا اور بعضوں کو قتل بھی کردیا،
نتیجہ یہ ہوا کہ دولت عباسیہ کا زوال شروع ہو گیا مختلف صوبوں کے گورنروں نے پایاء
تخت سے آزاد ہو کر اپنی اپنی خودمختار حکومتیں بنانا شروع کردیں، مثلاً ایرانی
گورنروں نے خراسان میں طاہریہ، فارس میں صفاریہ ، ماوراالنہر میں سامانیہ ،
آذربائجان میں ساجیہ اور جرجان مین زیاریہ کی جداگانہ حکومتیں قائم کرلیں ۔
اسی طرح ترکوں نے مصر میں تولونیہ ، ترکستان میں ایلکیہ
، پھر مصر میں اخشدیہ،اور افغانستان و ہند میںدولت غزنویہ کی بنیاد ڈالی۔یہ تمام
حکومتیں تیسری صدی کے وسط سے چوتھی صدی ہجری کے وسط تک قائم ہوگئی،پانچویں صدی ہجری
"گیارویں صدی عیسویں "میں ترکوں کے ایک گروہ نے خراسان میں دولت سلجوقیہ
کی بنیاد ڈالی۔
0 Comments