﷽
Ertughrul ارطغرل
ساتویں صدی ہجری،تیرہویں صدی عسویں،کی ابتدا میں شاہانخوارزم کی قوت اوج شباب پر تھی،وہ ایران وخراسان اور شام و عراق میں آل سلجوق کے بیش تر مقبوضات پر قابض ہو چکے تھے ،اور ایشیا کی تمام اسلامی سلطنتوں کو فتح کرلینا چاہتے تھے لیکن عین اس وقت جب وہ اس حوصلہ کی تکمیل کے لئے تیار ہو رہے تھے ،چنگیز خان اپنی تمام تر ہول ناکیوں کے ساتھ اٹھا اور سلطنت خوارزم کو پاش پاش کر ڈالا ،اس سلطنت کی تباہی کے بعد ترکی قبائل جنوب کی طرف بھاگے ،ان میں بعض ایران اور شام میں پہنچے اور وہاں ساتویں اورآٹھویں صدی ہجری بہت کچھ اقتدار حاصل کیا اور ترکمانی مشہور ہوئے اور بعض جنوب کی طرف بڑھے اور مصر کے سلاطین مملوک سے معرکہ آراہوئے،جوخود ترکی النسل تھےلیکن مصر میں انہیں شکست ہوئی اور وہاں سے واپس ہو کر وہ ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں سےآملے،ان ہی ترکئ قبائل میں جو چنگیز خان کے حملے کے بعد اپنا وطن چھوڑ کرمارے مارے پھر رہے تھے،ارطغرل کا قبیلہ بھی تھا۔
یہ قبیلہ ترکان اوغوزکےقبیلہ کا ایک جزوتھا جو ارطغرل کے باپ سلیمان شاہ کی سرکردگی میں اپنے وطن خراسان کو چھوڑ کر مختلف ملکوں میں گھومتا ہوا شام کی طرف جارہا تھا کہ اثنائے راہ میں دریائے فرات کو عبور کرتے ہوئے سلیمان شاہ ڈوب کر ہلاک ہوگیا ،قبیلہ کا بیشتر حصہ منتشر ہو گیا لیکن جو لوگ رہ گئے وہ ارطغرل اور اس کے بھائی دوندار کے ساتھ ایشائے کوچک کی طرف روانہ ہو ئےاور سلطان علاوالدین کیقوباد سلجوقی میں داخل ہوئے
پہلا معرکہ
یہ جماعت صرف چار سو گھرانوں پر مشتمل تھا سلطان علاوالدین کے زیرسایہ پناہ لینے کے لئے پایہ تخت قونیہ کی طرف جارہی تھی کے راستے میں انگورا کے قریب ارطغرل کو دو فوجیں لڑتی نظر آئیں وہ کسی فریق سے واقف نہ تھا لیکن یہ دیکھ کر کہ ان میں سے ایک تعداد کے لیحاظ سے کمزور اور دوسری قوی ہے،اپنے مختصر سے سواروں کے ساتھ جن کی تعداد صرف چالیس تھی ،کمزورفریق کی حمایت کے لئے بڑھا اور اس جان بازی سے حملہ آور ہوا کہ دشمن کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ،فتح حاصل کرنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ جس فریق کی اس نے مدد کی تھی ،وہ سلطان علاوالدین کی فوج تھی جسے تاتاریوں کی ایک بڑی کثیر تعداد فوج نے گھیر رکھا تھا
سنگ بنیاد
ارطغرل کے اس کارنامے کے صلہ میں سلطان علاوالدین اسے سوگوت کا زرخیز علاقہ جو دریائے سقاریہ کے بائیں جانب بازنطینی سرحد کے قریب ہی واقع تھا،جاگیر میں عطا کیا اور ساتھ ہی سوگوت شہر بھی بطور انام کے طور پر عطا کیا ،اس علاقہ میں ارطغرل اور اس کے ساتھیوں نے جو خراسان اور آرمینیا سے آئے تھے ،بودوباش اختیار کی ۔سلطان علاوالدین نے ارطغرل کواس جاگیر کا سپہ دار بھی مقرر کیا ،چونکہ ارطغرل کی جاگیر بازینطینی سرحد پر واقع تھی اس لئے بازینطینی قلعہ داروں سے اکثر جنگ کی نوبت آتی رہتی تھی ارطغرل نے تھوڑے ہی دنوں میں اپنی شجاعت کا سکہ بٹھایا اور اس کی فتوحات کا یہ اثر ہوا کہ بہت سے ترکی قبائل جو پہلے سے ایشائے کوچک میں آباد تھے ،اس کے ساتھ شامل ہونے لگے اور ساتھ ہی اس کے جنگوں میں شامل ہونے لگے اس طرح اس کی
قوت روز بہ روز بڑھتی گئی،اور اس کا اقتدار گردوپیش میں پھیلنا شروع ہوا ۔
سلطان علاوالدین کے لئے ایک جاگیردار کا اس طرح قوت واقتدار حاصل کر لینا تشویش کا باعث ہوتا
،لیکن ایشائے کوچک میں دولت سلجوق اندرونی اختلال اور امراء کی بغاوتوں کے سبب اپنی آخری منزل پر تھی ، اگرچہ قونیہ میں سلاجیقہ روم کی قدیم شان وشوکت اب بھی نمائاں تھی تاہم حکومت کا دائرہ بہت محدود رہ گیا تھا ،ایک طرف تاتاریوں نے جنوب اور
مشرقی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تو دوسری طرف عسائیوں نے شمال مشرق کے قدیم بازنطینی صوبوں کے اکثر حصے واپس لے لئے تھے،اوسطی اور جنوبی حصہ میں متعدد سلجوقی سرداروں نے خود مختار حکومتیں قائم کرلی تھیں ،سرحدی علاقوں میں جنگ کا سلسلہ عموما جاری رہتا تھا اور تاتاری حملوں کا خطرہ کبھی دور نہیں ہوتا تھا ،ایسی صورت حال میں ارطغرل جیسے بہادر اور دلیر سردار اور نائب کی فتوحات سے علاوالدین کو بجائے تشویش کے ایک گونہ اطمنان نصیب ہوا دراصل سلطان علاوالدین کو ارطغرل کی شکل میں ایک ایسا محافظ مل گیا تھا جس پر سلطان بھروسہ کر سکتا تھا ،چنانچہ شہر نبی اورباربروسہ کے درمیان ایک جنگ میں ارطغرل نے علاالدین کے نائب کی حثیت سے تاتاریوں اور بازنطینیوں کی ایک متحدہ فوج کو شکست دی تو سلطان نے اس کے صلہ میں اس کے شہر کو اس کے قبضے میں دے دیا اور پوری جاگیرکا نام سلطانونی رکھا ،نیز ارطغرل کو اپنے مقدمہ الجیش کا سپہ سالار مقرر کیا ۔
ارطغرل کا انتقال سن1288ء نوے سال کی عمر میں ہوا اور سوگوت کے قریب ہوا۔
0 Comments