﷽                                                                        

عثمان اول 

سن 687ھ تا 726ھ،  1288ء تا 1326ء  
ارطغرل کی وفات کے بعد اس کا چھوٹا بیٹا عثمان اس کا جانشین مقرر ہوا ،اور یہی عثمان دولت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی گئی اور عثمان سلطنت کا پہلا تاجدار بنا،ارطغرل نے اپنے زور قوت اور دولت سلجوقیہ کے تفرق و انتیشار کے باوجود کبھی خود مختاری کا دعوہ نہیں کیا اور گو سلجوقی امراء نے سلطنت کی کمزوری سے خاطر خواہ ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اپنے سے حکومتیں قائم کرلی تھی لیکن وہ خود آخر دم تک سلطنت کا وفادار بنا رہا ،اور سلطان علاوالدین نے اسکی اسی وفاداری کی وجہ سے بہت سے علاقے اس کی دسترس میں دے دئے ،ارطغرل نے اپنی اسی ساکھ کو برقرار رکھا ۔
،اسی بنا پر اپنی فتوحات کا دائرہ وسع کرنے کے لیئے اس سے بہتر موقع عثمان کو نہیں مل سکتا تھا لیکن اس نے اپنی توجہ زیادہ تر بازنطینی علاقوں کی طرف مبزول کر رکھی تھی جسکےمختلف اسباب تھے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ خود اس کی جاگیر بازینطنی سرحد سے متصل تھی اور بازینطینی سلطنت کی کمزوری روز بہ روز نمایاں ہو تی جارہی تھی ،یہ اسی کمزوری اور شہنشاہ قسطنطنیہ کی ایک سیاسی غلطی کا نتیجہ تھا کہ کوہ المپس کے دروں کی حفاظت نہ ہو سکی اور ترک بیتھینیا کے علاقوں میں داخل ہو گئے ،شہنشاہ پلیلوگس کے عہد تک ان دروں کی حفاظت اس علاقوں کے ردیف کے سپرد تھی اور وہ لوگ اس خدمت کے معاوضوں میں ٹیکسوں سے بری تھے لیکن اس کے بعد شہنشاہ نے اس رعائت کو منسوخ کر دیا ۔
اور دروں کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی،نیز خراج کی رقم سختی سے وصول کرنی شروع کی ،نتیجہ یہ ہوا کہ دروں کی حفاظت میں کوتاہیاں ہونے لگی اور وہ جفا کش پہاڑی لوگ محض کسان ہو کر رہ گئے جن میں کوئی جوش باقی نہ رہااور نہ فوجی نظم و تادیب بازینطینی سلطنت جو کسی زمانہ میں دنیا کی عظیم سلطنت میں شمار ہو تی تھی ،فرقہ ورانہ جنگوں اور انتہائی بد نظموں میں مبتلا تھی ، جس کے باعث اس میں کسی طاقت ور حریف کے مقابلہ کی قوت باقی نہ رہی،ایشائے کوچک میں اس کے سابق مقبوضات میں سے صرف چند شہر مثلابروصہ،ناسیا،نائکومیڈیا،اور اس کے باقی اضلاع باقی رہ گئے تھے ،جو شمال جنوب میں واقع تھے ،نیز باسفورس اور بحر مارمورا کے ساحلی خطے ابھی تک قسطنطنیہ کے زیر اثر حکومت تھے۔اناطولیہ کے بقیہ تمام علاقے جو پہلے بازینطینی سلطنت میں داخل تھے ،اس کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے ،عثمان کے لئے بازینطینی علاقوں کی طرف متوجہ ہونے کی دوسری وجہ اسلام کی تبلیغ تھی،تیسری وجہ بازنطینیوں سےبرسرپیکار ہونےکی تھی کہ عثمان کے لئے دوسری جانب قدم بڑھانے کی گنجائش نہ تھی ،سلجوقی امراء جنہوں نے خود سر حکومتیں قائم کرلی تھیں طاقت میں اس سے بڑھے ہوئے تھے ۔

قراجہ حصار

لیکن ان ترغیبات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہ ہو گا کہ عثمان نے بااقتدار ہونے کے ساتھ ہی حملے شروع کردئے تھے اسکی لڑائیاں ابتدامدافعانہ تھی ،بازنطینی قلعہ دار دولت سلجوقیہ کے سرحدی علاقوں پر وقتافوقتاحملہ آور ہوتے رہتے تھے ،سلطان قونیہ کے ایک نائب کی حثیت سے عثمان کو ان حملہ آوروں سے مقابلہ کے لئے اگے بڑھنا پڑا،پہلے ہی سال قراجہ حصار کا معرقہ پیش آیا ،عثمان نے اس قلعہ کو فتح کر کے بازنطینیوں کو آئندہ کے لئے متنبہ کردیا ،سلطان علاوالدین نے قراجہ حصار اور اس کے گردوپیش کے تمام آراضی جو عثمان نے حاصل کی تھی ،اسےجاگیر میں دے دی،نیز بک کے خطاب سے سرفراز کر کے اسے اپنا سکہ جاری کر نے اور اپنا نام جمعہ کے خطبے میں شامل کر نے کی بھی اجازت دے دی،اس طرح لقب کےعلاوہ بادشاہی کے تمام امتیازات عثمان کو حاصل ہو گئے ۔

استقلال

یہ کمی بھی چند سالوں کے بعد پوری ہو گئی سن 1300ء میں تاتاریوں نے ایشیائے کوچک پر حملہ کیا اور اسی جنگ میں سلطان علاوالدین مارا گیا ،بعض روائتوں میں ہے کہ اس کا قاتل خود اس کا لڑکا غیاث الدین تھا ،جس نے سلطنت کی خاطر ایسا کیا بہرحال تاتاریوں نے غیاث الدین کو بھی قتل کر دیا اور ایشیا ئے کوچک میں دولت سلجوقیہ کا خاتمہ ہو گیا ،اب عثمان بلکل آزاد اور خودمختار تھا ،اور آئندہ اس نے تمام فتوحات ایک خود مختار فرماروا کی حثیت سے حاصل کی
سلجوقی امراء میں عثمان کا سب سے بڑا حریف امیر کرمانیہ تھا ،چنانچہ ایشیائے کوچک کے ترکوں کی سرداری اور پورے ملک کی حکومت کے لئے فریقن کے مابین عثمان کی زندگی ہی میں جنگ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا ،جو اس کے متعدد جانشینوں کے عہد تک جاری رہا،خود عثمان نے بھی امیر کرمانیہ کو نیچا دیکھایا لیکن سلطنت بازنطینی کے زرخیز مقبوضات زیادہ تر اس کی توجہ کا مرکز تھے اور اس کی زندگی کے آخری چھبیس سال کے کارناموں میں بازنطینی ہی شہروں اور قلعوں کی فتوحات نمایاں ہیں۔

عثمان کے کارنامے

عثمان کا مقصد زندگی صرف فتوحات کا حاصل کرنا تھا اور گردو پیش کی ریاستوں کو اپنا مطع بنانا تھا سن 690ھ 1291ءعسویں سے 697ھ 1298ء تک اس نے اپنی تمام تر توجہ حکومت کے انتظام واستحکام کی جانب مبزول رکھی ،حکومت کے مختلف شعبے قائم کر کے حکام کا تقرر کیا اور رعایا کےفلاح وبہبود کے انتظامات کئے لیکن دوسرے ترک سرداروں نے ،جو عثمان کی بڑھتی ہو ئی قوت سے خائف تھے ،اس کی خاموشی کوضعف پر محمول کیا اور بازنطینی قلعہ داروں سے اتحاد کر کے اس کےمقبوضات پر حملہ آور ہوئے،اس طرح جنگ جو سلسلہ 697ھ1298ءمیں چھڑا وہ عثمان کی ظرف سے بلکل مدافعانہ تھا لیکن ان حملہ آوروں کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ،عثمان نے ان سب کو شکست دی اور تمام چھوٹے بڑے سرداروں کو مطیع کیا ،بازنطینی قلعے یکے بعد دیگرے فتح کئے اور بلاخر ینی شہر پر قبضہ کر کے اسے اپنی مملکت کا پایا تخت بنایا سن 801ھ 1301ء میں عثمان نائکو میڈیا سے متصل قیون حصار کے مقام پر پہلی بار شہنشاہ قسطنطنیہ کی باقاعدہ افواج سے مقابلہ پیش آیا ،جس میں اسے شاندار کامیابی حاصل ہوئی ۔
اور چھ سال کے اندر اس کی فتوحات کا دائرہ بحر اسود تک پھیل گیا ،بازنطینی قلعے پے درپے مسخر ہوتے گئے اور بروصہ،نائسیا ،نائکومیڈیا کے گرد فوجی اڈے قائم کئے اور مضبوط حصار قائم ہوگیا۔اس خطرہ کو دور کرنے کی غرض سے بازنطینوں نے تاتاریوں کو عثمانی مقبوضات پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ کیا ،عثمان نے اپنے لڑکے اورحان غازی کو حملہ آوروں کے مقابلہ پر بھیجا،تاتاریوں کو سخت شکست ہوئی،اور بازنطینوں کی یہ آخری کڑی بھی ٹوٹ گیئ۔