فتح بروصہ اور عثمان کی وفات

717ھ بمطابق 1317ء میں عثمان نے بروصہ کا محاصرہ کیاجو ایشیائے کوچک میں سلطنت بازنطینی  کا اہم ترین شہر تھا ،یہ محاصرہ تقریبا دس سال تک جاری رہا،اور بلاآخر 766ھ1366ء میں عاجز آکر محصورین نے ھتیار ڈال دیے اور شہر کو خالی کردیا اور ترکی فوج اور خان کی سربراہی میں فاتحانہ طور پر بروصہ میں داخل ہوئی ،عثمان اس وقت بستر مرگ پر تھا تاہم اس معرکے میں اورحان غازی نے شاندار فتح حاصل کی اور یہ خوش خبری اورحان نے اپنے والد عثمان کو سنائی توعثمان بہت خوش ہوا،عثمان نے اورحان غازی کی ہمت و بہادری کی داد دی اور اپنے مرنے سے پہلے اپنا جانشین مقرر کیا اور بلا تفریق تمام رعایا کے ساتھ یکساں عدل و انصاف اور بھلائی کرنے کی وصیت کی ،پھر یہ ہدایت کی کہ اسے بروصہ میں دفن کیا جائےاور اس شہر کو عثمانی سلطنت کا پایا تخت بنایا جائے۔ 

چنانچہ اس وصیت کے مطابق اسے بروصہ میں دفن کیا گیا،اور اس کی قبر پرایک عالی شان مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

سلطنت

عثمان دولت عثمانیہ کا پہلا تاجدار ہے،اس بنا پرعموما اس کے نام کے ساتھ سلطان کا لقب بھی شامل کردیتے ہیں ،لیکن خود اس نے اور اس کے بعد اورحان اور مراد اول نے صرف امیر کا لقب اختیار کیا۔ارطغرل کی وفات پراس کے مقبوضات کا دائرہ سوگوت،اس کی شہر اور چندمواضعات پر ختم ہو جاتا تھا،عثمان نے اپنی اڑتیس سال کی حکومت میں اس دائرہ کو جنوب میں کوتاہیہ اور شمال میں بحرمارمورا اور بحراسودکے ساحلوں تک وسیع کردیا،اس کی قلم روکا طول تقریبا120 میل اور عرض تقریبا 60 میل تھا آبادی صرف ترکوں پر مشتمل نہ تھی ،بلکہ بیش تر علاقےچوں کہ سلطنت با زنطینی کے ایشیائی مقبوضات سے حاصل کردہ تھے ،اس لئے آبادی میں ایک بڑی تعداد یونانی اور سلافی باشندوں کی بھی تھی ،جو بخوشی مسلمان ہو کر ترکوں میں شامل ہو گئے تھے ،اورسلے لکھتا ہے کہ یہ عیسائی کسی جبر سے اسلام نہیں لائےکیوں کہ تاریخ میں نہ تو قیدیوں کے قتل عام عام کا کوئی ذکر ہے اور نہ بحیثیت غلام انہیں فروخت کرنے کا ،بلکہ ان کے اسلام لانے کی وجہ یہ ہوئی کہ قسطنطنیہ کے یونانیوں نے جو فطری طور پر ان کے محافظ تھے ،چھوڑ دیا تھااسلام میں داخل ہونے کے بعد فاتح اور مفتوح کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات بھی قائم ہو گئے اور دونوں کے میل سے ایک نئی نسل تیار ہونے لگی ،جو دوسری ترکی ریاستوں کے باشندوں سے کچھ مختلف تھی اور اپنے کو عثمانی کہتی تھی

عثمان کا اسلام

اس موقع پر خود عثمان اور اس کے قبیلے کے اسلام لانے کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے ،اب سے بیس بائیس سال قبل تک یہ امر کوچک کی سرحدوں پر نمودار ہویں ان کا اسلام لانے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا ،جبکہ ان سے پہلے کے ترک حملا آور جب اس ملک میں داخل ہوئے ، لیکن بعد میں انے والے ترک جن میں عثمان بھی شامل تھا اور پیدا ہوا ،کچھ بہت زیادہ اسلام کے زیر اثر نہیں رہے ،جبکہ خود عثمانیوں کے تاریخ دان اور پچاس ہراز گھرانوں پر مشتمل ایک قبیلہ تھا،وہ سب غیر مسلم تھے وہ کہتا ہے کہ ان سے کچھ شامی ترکمانوں کے آباواجداد تھے اور بقایا ان تمام خانہ بدوش قوموں کے جو روم میں ادھر ادھربھٹکتی رہتی تھیں ،اور خود نشری کے زمانے میں میں بھی موجود تھیں ،بارہویں صدی عیسویں اور اس کے بعد کے ،جب عثمان کا قائی قبیلہ وہاں آیا ،تب ملک کے مغربی حصے میں پہنچ کر اپنے آپ کو ایک اسلامی ماحول میں پایا وہ تعداد میں آتے میں نمک کے برابر تھے لیکن اس سے زیادہ ان کے لئے قدرتی بات کوئی نہ تھی کہ اپنے سلجوق کا مذہب اختیار کر لیں،یہ اتنی قدرتی بات تھی کہ اس کے ذکر کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔
عثمان اور اس کے قبیلہ کے اسلام لانے عثمانی قوم پیدا ہوئی کیوں کہ اسلام ہی نے ان مختلف قوموں کو ،جو ایشیائے کوچک کے شمال مشرقی ،مغربی گوشہ میں آباد تھیں،متحد کر کے ایک قوم بنادیا یہ سلاجیقہ قونیہ کے خاتمہ کا نہیں ،بلکہ اس تبدیلی مذہب کا نتیجہ تھا ۔679ھ 1290ء کے بعد عثمان کی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہوگئی،حالانکہ اس سے سوگوت کی زندگی کےپچاس سال ان سرگرمیوں سے خالی تھی۔ارطغرل اور عثمان ایک دیہاتی سردار کی حثیت سے سوگوت میں سیدھی سادھی زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے تمام حوصلے اپنے چھوٹے سے گاوں تک ہی محدود تھے ،ان کی اس زمانے کی اسی جنگ یا فتح کا کہیں بھی ذکرتاریخ نہیں ملتا ارطغرل کے ساتھ تقریبن چار سو سپاہی تھے اور عثمان کے ساتھ اس سے زیادہ سپاہیوں کے ہونےکابھی کوئی خاص ذکر نہیں ملتا ،اس کے تعلقات اپنے پڑوسیوں سے بلکل صلح اور دوستی کے جیسے تھے ،نشرح کا بیان ہے کہ اس ملک کے کافر اور مسلم دونوں ارطغرل اور اس کے صاحبزادوں کی عزت کرتے تھے ،کافر اور مسلم کا کوئی جواز ہی نہ تھا ،پھر ہم عثمان کو اپنے پڑوسیوں پر حملہ آور ہوتے اور ان کے قلعوں کا فتح کرتے ہوئےدیکھتے ہیں سن 679ھ بمطابق 1290ء سن 1300ء تک وہ اپنے مقبوضات کو وسع تر کرتا چلا گیا یہاں تک کے اس کی سرحد بازنطینی علاقوں تک مل جاتی ہے ۔اس کے سپاہیوں کی تعداد چار سوسے بڑھ کر چار ہزار تک پہنچ گئی تھی ،ہم ایک قوم کا ذکر سنتے ہیں ،جو ترک نہیں بلکہ اپنے سرداروں کے نام پر "عثمانی"کہلاتی ہے،اس سردار کا نام بھی خود بھی اس کی قوم کے نام کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے یہ لوگ یونانیوں بازنطینوں ،تاتاریوں دونوں کے یکساں دشمن ہیں اور متعین طور پر اسلام سے وابسطہ ہیں ۔
 ان کی باہمی وحدت اور ایشیائے کوچک کے دوسرے ترکوں سے ان کا قطعی طور پر مختلف ہونا ہے ،چودھویں صدی کے ابتدائی ساٹھ سالوں میں اس قدر نمایاں ہو جاتا ہے کہ یورپ انہیں ایک بحثیت قوم کے تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے      
ایشیائے کوچک کے دوسری جماعتوں کی نسبت چونکہ یہی لوگ یورپ کے سامنے زیادہ آئے اس لئے اہل یورپ انہیں محض ترک کہنا شروع کردیا ان کو انا طولیہ کے تمام ترکوں کا نمائندہ سمجھنے لگے ۔
پرروفیسر گرمانس نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ کہ اپنے پیش روں کی طرح جنہوں نے ایشیائے کوچک میں بودوباش اختیار کی تھی ،ایک طرح سے وہ بھی ترک ہی تھے ،ایک اور فرق یہ تھا ،کہ سلاجیقہ تو صدیوں سے اسلام لا چکے تھے لیکن یہ نواروہنوزاپنے قدیم خانہ بدوشی کے مسلک پر قائم تھے ، ان کے سردار ارطغرل کے بیٹے عثمان کی شادی سے متعلق جو روایات مشہور ہیںاس سے ہمارا اندازہ صحیح چابت ہوتا ہے کہ انہوں نے ایشیائے کوچک کے اسلامی فضا میں داخل ہونے کے بعد السلام قبول کیا۔

بالاخاتون

روایت ہے کہ اس شہر کے قریب ابترونی نام کے اس چھوٹے سے گاوں میں ایک خدا رسیدہ عالم ادہ بالی رہا کرتے تھے ،عثمان اپنی تو عمری کے زمانے میں ان کی خدمت میں اکثر حاضر ہوا کرتا تھا ،ان کی ایک نیہایت حسین بیٹی تھی جس کا نام بالا خاتون تھا ،ایک روز اتفاق سے عثمان پر اس کی نظر پڑھ گئی اور وہ دیکھتے ہی عثمان اس پر فر یفتہ ہو گیا ، چنانچہ عثمان نے شیخ ادبالی کو نکاح کا پیغام بھجوایا لیکن ادہ بالی درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے اس لئے شیخ نے اس پیغام کو قبول نہ کیا ،دو سال تک عشق ومحبت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور عثمان نے شیخ ادہ بالی کے گھر مسلسل انا جانا رکھا ، اس درمیان میں چند اور ترک سرداروں نے بھی، جو طاقت اور وجاہت میں عثمان سے بڑھے تھے ،بالا خاتون سے شادی کی خواہش ظاہر کی ، لیکن ادہ بالی نے ان کو بھی جواب دے دیا ۔بلآخر ایک دن جب عثمان ادہ بالی کے یہاں رکا ہوا تھا،اسی رات اس نے ایک خواب دیکھا کہ ایک چاند شیخ ادہ بالی کے سینے سے ہلال بن کر رفتہ رفتہ بدر کامل بن کر عثمان کے سینے میں اتر آیا،اور پھر یہ ایک تن آور درخت بن گیا جس کی شاخیں بحروبر پر چھا گئیں ،درخت کی جڑ سے نکل کر دنیا کے چار بڑھے دریا ، دجلہ ،فرات ، نیل اور ڈینوب بہ رہے تھے ، اس کے علاوہ اس کی شاخیں چار بڑھے پہاڑ ،کوہ قاف ،کوہ بلقان،کوہ طور،اور کوہ اٹلس،کو سنبھالے ہوئے تھی۔پھر اچانک ایک ہوا چلی اور اس درخت کی پتیوں کا رخ جو تلوار سے مشابہ تھاایک عظیم الشان شہر کی جانب ہو گیا ،یہ شہر جو دو سمند اور دو براعظموں کےاتصال پر واقع تھا ،مثل ایک انگھوٹی کے دیکھائی دیتا تھا ،جس میں دونیلم اور دو زمرد جڑھے ہوئے تھے ،عثمان اس انگھوٹی کو پہننا ہی چاہتا تھا کہ اچانک اس کی انکھ کھل جاتی ہے۔بیدار ہونے کے بعد اس نے یہ خواب شیخ ادہ بالی کو سنایا،اس میں عثمان کے شاندار مستقبل کو دیکھ کر اور ایک اشارہ  غیبی سمجھ کر بالا خاتون کو اس کے نکاح میں دے دیا ،

ذاتی اوصاف

عثمان میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے تھے جو ایک بانی سلطنت کےلئے ضروری ہیں اس کی ہمت و شجاعت غیر معمولی تھے اسے قیادت کا خداداد ملکہ حاصل تھا میدان جنگ میں اس کی بہادری سپاہیوں میں دلیری پھونک دیتی تھی اور انتظام حکومت میں اس کی دانش مندی رعایا کے دلوں کو اپنا گرویدہ بنا دیتی تھی ،اس کے عدل وانصاف کی شہرت،تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی،اس کی عدالت میں ترک و تاتار ،مسلم و عیسائی ،سب برابر تھے ،رعایا کی سہولیات اس کی اولین نصب العین تھا اور ملک کی خوشحالی اس کابنیادی مقصد تھا۔قرون اولٰی کے مجاہدوں کی طرح اس کا طرز زندگی نہایت سادہ اور نمائش سے یکسیر پاک تھا ،دولت اس نے کبھی جمع نہیں کی ،تمام مال غنیمت غریبوں اور یتیموں کا حصہ نکالنے کے بعد سپاہیوں میں تقسیم کردیتا تھا ،ینی شہر میں اس کا جو مکان تھا، اس میں سونے،چاندی،یا جواہرات،کی قسم سے کوئی چیز بھی نہیں ملی،صرف ایک گفتان،اور ایک صوتی عمامہ،لکڑیکا ایک چمچہ ،ایک نمک دان،چند عربی گھوڑے،زراعت کے لئے چند بیلاور بھیڑوں کے کچھ غلے اور اسلحہ کے علاوہ بس یہی اس کی کل کائنات تھی وہ نہایت فیاض،نہایت رحمدل،نہایت مہمان نواز تھا،ان خصوصیات کی وجہ سے اس کی ہر دل عزیزی عام تھی،چنانچہ تخت نشینی کے موقع پر جب اس کی تلوار جو ابھی تک محفوظ ہے اس کے جانشینوں سے باندھی جاتی تھی تو ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی جاتی تھی کہ خدا ان بھی عثمان جیسی خصوصیات پیدا کرے۔