Orhan Khan Ghazi   اورحان خان 

 تا 760ھ مطابق 1326ء تا 1359ء 

عثمان نے اپنے بعد جس بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کیا اس کا نام اورحان خان تھا جس نے 33 سال سلطنت عثمانیہ پر اپنی دھاک بھیٹائے رکھی،اورحان بھی اپنے باپ کی طرح بہادر جنگ جو ثابت ہوا ،جس وقت اورحان جانشین مقرر ہوا تو اس کی عمر صرف 42 سال تھی، اور وہ فن سپہ گری میں عثمان کے زیر نگرانی مہارت اور کمال حاصل کرچکا تھا۔اس کے سب سے بڑھے لڑکے علاءالدین نے اپنا وقت علوم دین کی تحیصل میں صرف کیا تھا،فن حرب سے اس کو کوئی دلچسپی نہ تھی ،تاہم عثمان کی وفات کے بعد اورحان نے سلطنت کی باہم تقسیم کرلینے پر آمادگی ظاہر کی،لیکن علاءالدین نے باپ کی وصیت نیز اپنی پر سکون طبیت کی بنا پر اس کو نامنظور کیااور اورحان کے اصرار پرصرف انتظام مملکت کی ذمہ داری قبول کی،یعنی تخت سلطنت سے کنارہ کشی ہونے کے باوجود سلطنت کا بار اٹھانا قبول کیا،اور دولت عثمانہ کے پہلے وزیر کی حثیت سے آئین ملک کی ترتیب و تنظیم میں مشغول ہوا۔

اصلاحات

علاءالدین نے تین چیزوں پر خاص طور پر توجہ دی سکہ،لباس،اور فوج ۔اگرچہ سلطان علاءالدین سلجوقی نے عثمان کو خطبہ کے علاوہ اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کی بھی اجازت دی تھی ،تاہم عثمان نے صرف خطبہ پر ہی قناعت کی تھی اور اپنا سکہ جاری نہیں کیاتھا ،اورحان کی تخت نشینی کے وقت تمام ایشیائے کوچک میں صرف سلجوقی سکے رائج تھے اب علاء الدین نے بادشاہت کے اس امتیاز کو بھی اختیار کیااور اسلامی مملکت میں اورحان خان کے سکے جاری کئے اب تک لوگوں کے لباس میں بھی کوئی خاص فرق وامتیاز نہ تھا علاءالدین نے رعایا کے مختلف طبقوں کے لئے مختلف قسم کے لباس تجویز کر کے ان کے متعلق قوانین نافذ کئے شہری اور دیہاتی ،مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کا لباس الگ الگ تھا

فوج

علاءالدین کا سب سے بڑا کارنامہ وہ فوجی آصلاحات ہیں جن سے دولت عثمانیہ کی طاقت دفعہ بڑھ گئی ،اور جو تین سو برس تک اس کی حیرت انگیز فتوحات کی ضامن رہیں ،ارطغرل اور عثمان کے زمانے میں کوئی باقاعدہ فوج نہ تھی ،بلکہ یہ دستور تھا کہ جب کوئی جنگ پیش آنے والی ہوتی تو پہلے سے علان کر دیا جاتا کہ جو شخص لڑائی میں شریک ہونا چاہے تو وہ فلاں روز فلان مقام پر حاضر ہو جائے ،چنانچہ یہ رضا کار سوار مقررہ وقت پر مقررہ مقام پر جمع ہو جاتے تھے اور لڑائی ختم ہونے کے بعد واپس چلے جاتے تھے انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی بلکہ جو مال غنیمت ہاتھ آتا تھا ،وہی ان کا خدمت کا معاوضہ ہوتا تھا ۔ان کی کوئی مخصوص وردی بھی نہیں ہوتی تھی یہ سپاہی اعلٰی درجے کے شہ سوار ہوتے تھے اور مضبوطی کے ساتھ صف قائم کر کے میدان جنگ میں اگے بڑھتے تھے عثمان کے دور میں تو اسی طرح کام چلتا رہا لیکن سلطنت کے قیام اور اس کی توسع کے حصول کے لئے یہ نظام ناکافی تھا اور نئے فوجی صلاحات کی ضرورت درپیش آنے لگی ،چنانچہ علاءالدین نے تنخواہ دار پیادوں کی فوج کو مرتب کیا جن کا نام " پیادے" تھا ،یہ دس دس ، سو سو اور ہزار ہزار کے دستوں میں تقسیم تھی ،اس کی تنخواہیں اونچی تھی لیکن اس کے قیام کو ابھی زیادہ عرصہ بھی نہ ہوا تھا کہ اس میں اپنی قوت کا بے جا احساس پیدا ہوااور اس کی سرکشی خود اورحان خان کے لئے درد سر کا باعث بننے لگی،چنانچہ اورحان نے اس امر میں علاءالدین اور قراخلیل سے جو خاندان شاہی سے تعلق رکھتا تھا اور علاءالدین کے بعد وزیر سلطنت ہو کر "خیرالدین پاشا " کے نام سے مشہور ہوا،تو علاءالدین نے قرالخلیل سے مشورہ کیا کہ قرالخلیل نے جو تجویز پیش کی ، اس نے نہ صرف پیادوں کی طرف سے مطمئن  کردیا بلکہ آئندہ تین صدیوں تک کے لئے عثمانی فتوحات میں ایک نئی روح پھونک دی۔  

ینی چری

وہ تجویز یہ تھی کہ عیسائی اسیران جنگ میں سے دس بارہ سال کے قوی اور ہونہار لڑکوں کی ایک تعداد منتخب کر کے اسلام میں داخل کر لیا جائے اور پھر باقاعدہ فوجی تعلیم دے کر ان کی ایک مستقل فوج قائم کی جائے ،اورحان خان کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اس نے ایک ہزار لڑکوں کی ایک جماعت کو منتخب کر کے انہیں فوجی تعلیم وتربیت دینی شروع کی ،دوسرے سال ایک ہزار اور لڑکوں کو منتخب کیا گیا اور ان کی بھی اسی طرح تعلیم و تربیت دے گئی اور یہ سلسلہ تین سو برس تک جاری رہا،جب کبھی ایک ہزار لڑکوں کی یہ سالانہ تعداد پوری نہ ہوسکتی ،جو اس سال کی جنگ میں قید ہوتے عیسائی لڑکوں سے یہ کمی پوری کی جاتی۔

لیکن سلطان محمد رابع کے دور حکومت میں یہ نظام بدل گیا تھا اور 1058ھ 1648ء سے خودان ہی سپاہیوں اور ترکوں کے لڑکے اس فوج میں داخل کئے جانے لگے،اور اسی طرح اس فوج کا نام ینی چری رکھا گیایعنی نئی فوج ،اورحان خان نے جب اسے مرتب کیا تو نوعمر سپاہیوں کے پہلے دستے کو حاجی بکطاش کی خدمت میں ،جو ملک میں زحد و اتقا کی وجہ سے مشہور تھے ،لے گیا اور ان سے دعا کی خواہش کی ،حاجی موصوف نے اس فوج کے لئے فتح و نصرت کی دعا کی اور اس کا نام ینی چری رکھا ،سلطنت عثمانیہ کی تین ابتدائی صدیوں میں جو اس کے ترقی وعروج کا زمانہ تھا ،ینی چری کی قوت شباب پر تھی اور سلطنت کی زیادہ تر فتوحات اسی فوج زور بازوکی رہن منت تھی،جو لڑکے اس فوج کے لئے منتخب کئے جاتے تھے ،پہلے انہیں ایسے ماحول میں رکھا جاتا تھا کہ وہ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتے جائیں پھر اسلام  قبول کرنے کے بعد سلطان کی خاص نگرانی میں فن حرب کی اعلٰی تعلیم دی جاتی تھی ،اپنے والدین،وطن اور مذہب سے چھوٹنے کے بعد ان کی تمام امیدیں سلطان کی اطاعت،دولت عثمانیہ کی خدمت اور اسلام کی حمایت سے وابستہ ہو جاتی تھیں اور یہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا ۔

سلطان کو ان پر پورا اعتماد تھا اور وہ ان کو ہمیشہ انعام و اکرام سے نوازتا تھا ینی چری کے حالات مزید آگے ائینگے ۔

جاگیردار اور بے ضابطہ پیادے

ینی چری کے بعد علاءالدین نے دوسری فوج کی طرف بھی نگرانی شروع کی ان کی تنطیم نو کا اغاز کیا ،اب تک "پیادوں"کی مستقل فوج کو تنخواہیں دی جاتی تھیں لیکن اس خیال سے کہ ان کو مفتوحہ علاقوںکی حفاظت سے ایک خاص وابستگی پیدا ہو جائے ،علاءالدین نے اب تنخواہ کے بجائے انہیں جاگیر دینا شروع کی اور فوجی خدمت کے علاوہ ان جاگیروں سے متصل سڑکوں کی مرمت بھی ان کے فرائض میں شامل کردی گئیں،پیدل فوج کے ایک بے ضابطہ فوج بھی مرتب کی گئی،ان کو نہ تو ینی چری کی طرح تنخواہ ملتی تھی اور نہ ہی پیادوں کی طرح جاگیریں،میدان جنگ میں ان ہی کا دستہ سب سے اگے ہوتا تھا اور دشمن کے پہلے حملے کی باڑ ھ اگے بڑھ کر یہی روکتے تھے ، جب ان سے مقابلہ کرنے میں غنم کی قوت کمزور ہوتی  یا ان کے میدان کو چھوڑ کر بھاگنے کی وجہ سے اسے اپنی فتح کا یقین ہونے لگتا  ،اسی وقت ینی چری کی آہنی  فوج اس کے سامنے نمودار ہوتی اور جنگ کا سارا نقشہ دیکھتے دیکھتے بدل جاتا ،عموما ان بے ضابطہ سپاہیوں کی  نعشوں   پر سے گزر کر ینی چری آخری حملہ اور فتح کے لئے آگے بڑھتے تھے۔

تنخواہ دار اور جاگیردار سوار

پیادوں کی طرح سواروں کی بھی دو قسمیں تھیں،ایک بے ضابطہ اور با ضابطہ ،مستقل تنخواہ دار سوار دستوں میں تقسیم کئے گئے تھے ان کی تعداد ابتدا میں  دو ہزار چار سو تھی لیکن سلطان اعظم  کے دور عہد میں چار ہزار تک پہنچ گئی تھی وہ سلطان کے داہنے اور بائیں چلتے تھے،اور جنگ میں اس کے محافظ دستہ کا کام دیتے تھے شاہی سواروں کے دستوں میں ایک دستہ "سپاہیوں "کا تھا ۔سپاہیوں کا لفظ عموما سوار فوج کے لئے استعمال کیا جاتا تھا لیکن شاہی سواروں کا ایک خاص دستہ بھی اس نام سے موصوم تھا،تنخواہ دار سواروں کے علاوہ علاءالدین نے جاگیردار سواروں کی بھی ایک فوج مرتب کی ،ان کی جاگیروں کو زعامت اور تیمار کہتے تھے ۔

اکنجی

تنخواہ دار اور جاگیردار سواروں کے علاوہ بے ضابطہ سواروں کی بھی ایک فوج تھی جو اکنجی کہلاتے تھے ،ان کو نہ تنخواہیں ملتی تھیں اور نہ جاگیر یں ،جنگ میں جو لوٹ مار کر جو کچھ حاصل کرلیتے تھے وہی ان کا معاوضہ ہوتا تھا قدیم دستور کے مطابق ،عثمانی فوجوں کی روانگی کے وقت یہ ایک بڑی تعداد میں بلائے جاتے تھے یہ گویا مقدمہ  الجیش تھے اور باقاعدہ افواج کے لئے پہلے ہی راستہ صاف کر دیتے تھے، دشمن کے دلوں میں ان کی دہشت بھی ینی چری اور سپاہیوں سے کم نہ تھی،لیکن ان ہی کو سب سے زیادہ خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔