مراد اؤل
اورحان خان کی وفات پر اس کا چھوٹا لڑکا مراد اؤل چالیس سال
کی عمر میں تخت نشین ہوا، اس میں ملک گیری اور حکمرانی کی وہ تمام صفات اور خصو صیات
بدرجہ اتم موجود تھیں جو آل عثمان کے ابتدائی فرماں رواؤں میں تھیں ، اس کی غیر
معمولی قابلیت نے ایک قلیل مدت میں یورپ کی متعدد مملکتوں کو اپنی سلطنت میں شامل
کیااو ر انتظام حکومت کے خداداد ملکہ نے ان مفتوحات کو سلطنت کا مستقل گڑھ بنادیا
اورحان خان نے اپنی عہد میں سلطنت کو بہت وسع کیا تھا لیکن
اناطولیہ کی بعض ترک ریاستیں رقبہ میں اب بھی اس بڑھی ہوئی تھیں ،مراد کی تخت نشیشنی
کے وقت سلطنت عثمانیہ ایشیا ئے کوچک کے شمال مغربی حصہ اور یورپ میں زنب کیلی پولی
اور تھریس کے بعض دیگر مقبوضات پر مشتمل تھی، جہاں سلیمان پاشا نے ترکوں اور عربوں
کی نو آبادیاں قائم کردی تھیں ،اس کا مجموعی رقبہ بیس ہزار مربع میل سے زیادہ نہ
تھا اور آبادی بھی دس لاکھ سے زیادہ نہ تھی ،مراد نے صرف تیس سال میں سلطنت کا
پانچ گناہ بڑھادیا تھا۔
ایشیائے کوچک میں بغاوت
حکومت کا ہاتھ میں لینے کے بعد مراد نے سب سے پہلے یورپ کی
طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا لیکن امیر کرمانیہ نے اس قدیم بغاوت کی بنا پر جو ،اس کے
خاندان اور آل عثمان کے درمیان چلی ارہی تھی ایشیائے کوچک میں مراد کے خلاف بغاوت
کردی، جسے رد کرنے کے لئے مراد نے یورپ کا ارادہ ترک کردیا اور اس نے فورا موقع پر
پہنچ کر بغاوت کا خاتمہ کیا ،ادھر سے اطمنان حاصل کرنے کے بعد وہ یورپ کی طرف
گامزن ہوا اور سن 761ھ 1360ء میں درہ دانیال کو عبور کر کے فتوحات کا وہ حیرت انگیز
سلسلہ شروع کیا جو 791ھ 1389ءمیں صرف اس کی شہادت پر جنگ کسوو میں ختم ہوئی۔
فتوحات تھریس
مراد کی تخت نشینی کے وقت سلطنت بازنطینی کی حالت نہائت
ابتر ہوچکی تھی،اس کا تمام ایشیائی مقبوضات پر ترکوں کا قبضہ ہو چکا تھا،اور یورپ
میں سوائے قسطنطنیہ کے علاوہ صرف شمالی تھریس اور مقدونیہ اور موریا کے علاقے باقی
رہ گئے تھے ،باہمی عداوتوں کے باعث ابتدا میں کوئی عیسائی حکومت ترکوں کے مقابلے میں
اس کی مدد کے لئے آمادہ نہ ہوئی۔یہ سلطنت بلاشبہ ایک عیسائی سلطنت تھی اور ترکوں
کا حملہ مذہبی نقطہ نظر سے نہایت خطر ناک تھا،لیکن یورپ میں صلیبی کی قدیم روح تقریبا
فنا ہوچکی تھی اور یونانی ،لاطینی کلیساؤں کی شدید مخاصمت نے اتحاد عمل کے لئے بہت
کم گنجائش رکھی گئی تھی۔
ان حالات میں مراد نے درہ دانیال کو عبور کر کے ایک زبردست
فوج کے ساتھ تھریس میں قدم رکھا اور سب سے پہلا قلعہ شورلو پر قبضہ کیا ،جو
قسطنطنہ سے صرف پانچ میل کے فاصلے پر تھا ،اس کے بعد دوسرا قلعہ کرک کلیسے فتح
ہوا،پھر 764ھ1363ء میں اس کی بابا کے مقام پر بازنطینیوں کے ساتھ ایک سخت معرکہ پیش
آیا۔جس میں مراد نے انہیں بہت بری طرح شکست دی،نتیجہ یہ ہوا کہ بازنطینیوں نے فورا
ہتھیار ڈال دئے اور تقریبا تمام تھریس مراد کے قبضہ میں اگیا،اس کے بعد عثمانی
جنرل لالہ شاہین نے بلغاریہ میں داخل ہو کر فلیپو پولس کو فتح کیا جو کہ کوہ بلقان
کے جنوب میں سلطنت بازنطینی کا مقبوضہ تھا اور شہنشاہ قسنطنیہ کو مجبور ہو کر مراد
سے صلح کرنی پڑی ،اس نے معاہدہ کیا کہ تھریس کے جو علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے
انہیں دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے گا۔جبکہ عثمانیوں کے آئندہ حملوں میں سرویا
اور بلغاریا کو مدد نہیں دے گا ،نیز اناطولیہ کے ترکی امراء کے مقابلہ میں مراد کی
اعانت کرے گا ، اس کے بعد مراد بروصہ واپس چلا گیا۔
جنگ مارٹیز
یورپ میں مراد کا مقابلہ اب تک صرف سلطنت بازنطینی کی افواج کے ساتھ ہوتا رہا۔اور دوسری مسیحی حکومتوں نے ترکوں کی مدافعت میں سلطنت بازنطینی کو مطلق مدد نہیں دی تھی،یہاں تک کہ یورپ میں بھی جس نے اس سے پیش تر صلیبی کی تحریک میں اس قدر نمایاں حصہ لیا تھا۔مراد کی ان فتوحات پرکسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ یونانی کلیساؤں کے پیروؤں کی تباہی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتا رہا۔مگر اب فلیپو پولس کی فتح نے معاملے کی صورتحال کو یکسیر تبدیل کر کے رکھ دیا،یہ شہر اگرچہ سلطنت بازنطینی کا مقبوضہ تھا،مگر بلغاریہ میں واقع تھا،اس کی فتح نے عثمانی فوجوں کا راستہ کھول دیا ،ترکوں کا یہ اقدام بالاخر کلیسائے روما کے زیر سایہ حکومتوں کے لئے بھی تردد کا باعث بنا،اور پوپ اربن پنجم نے ھنگری ،سرویا،بوسنیا،اور ولاچیا کے فرماں رواں کو آمادہ کیا کہ ترکوں کے بڑھتے ہوئے قدم کوروکنے کےلئے اپنی افواج روانہ کرے، چنانچہ اتحادیوں نے 764ھ بمطابق 1363ء میں بیس ہزار فوج تھریس روانہ کی اور یہ علان کیا کہ وہ ترکوں کو یورپ سے نکال چھوڑیں گے ، مراد اس وقت اناطولیہ میں تھا، یہ خبر سن کر فورا یورپ کی طرف روانہ ہوا،مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی لالہ شاہین نے ایک مختصر سی فوج کے ساتھ ،جو تعداد میں مسیحی لشکر سے بھی بہت کم تھی ،ان کے مقابلے کے لئے اگے بڑھا اور روز رات کو جب کہ اتحادی فوجیں اورنہ سے قریب دریائے مارٹیز کے ساحل پر اپنے خیموں کے اندر شراب وکباب میں مست تھے ،دفعتہ حملہ آور ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام مسیحی افواج کو تہ تیغ کردیا۔جو لالہ شاہین کی تلوار سے بچ گئے انہوں نے دریا کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب کر جان دے دی ، یوں گویاپوری عیسائی فوج ہلاک ہوگئی ،شاہ ہنگری جو موقع پر موجود تھا ،بہ مشکل جان بچاکر بھاگ کھڑا ہوا۔
یہ پہلا معرکہ تھا جو عثمانیوں کو یورپ کی سلانی قوموں کے ساتھ پیش آیا اس جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ کو ہ بلقان کا جنوب کا سارا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوگیا ،اس سے عیسایئوں کی قوت کو سخت صدمہ پہنچااور مرادنے یہ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ اپنی سلطنت کے بجائے یورپ میں وسعت دینے کی کوشش کرے گا ۔اسی غرض سے اس نے اب ڈیمونیکا شہر جو تھریس میں واقع تھا پایہ تخت بنایا اور تین سال بعد اورنہ کو دارالسلطنت قرار دےدیا اس کی یہ حثیت فتح قسطنطنیہ تک قائم رہی،اورنہ سے مراد نے بلقانی ریاستوں پر حملہ کی تیاری شروع کردی ،جنگ مارٹیز کے بعد مراد اور شہنشاہ قسطنطنیہ کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کی رو سے شہنشاہ نے سلطان کا باج گذار ہونا منظور کیا اور آئندہ جنگوں میں عثمانی فوج کی حمایت میں اپنی فاج کا دستہ بھیجنے کا وعدہ کیا۔
1 Comments
Very interested blog
ReplyDelete