شہنشاہ کی ناکامی

The emperor's failure

کچھ دنوں تک تو شہنشاہ قسطنطنیہ خاموشی سے خراج ادا کرتا رہالیکن پھر اسے اپنی محکومی ناقابل برداشت محسوس ہونے لگی ،چنانچہ 771ھ 1369ءمیں اس نے روما
کا سفر کیا اور پوپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یورپ کی مسیحی حکومتوں کودولت عثمانیہ کے خلاف ابھارنے کی درخواست پیش کی ،اس نے پوپ کی حمایت میں طرح طرح کی ذلت گوارا کی ،یونانی کلیسا کے ان تمام عقائد سے ابتری ظاہر کی جو کلیسائے روما سے مختلف تھی اور مذہبی معاملات میں روما کی برتری بھی تسلیم کرلی ، مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس کا مقصد حاصل نہ ہوا اور مسیحی حکومتیں ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوئیں ،شہنشاہ ناکام و نامراد واپس قسطنطنیہ روانہ ہوا واپسی میں جب وہ وینس سے گذر رہا تھا تو وہاں کے بعض ساہو کاروں نے جن سے روما کے سفر کے لئے اس نے روپیہ قرض لیا تھا ،اسے گرفتار کرلیا،اس کے پاس اتنا روپیہ نہ تھا کہ قرض ادا کر سکے ،اس کا بڑا لڑکا اینڈرونیکس جسے وہ قسطنطنیہ میں اپنا جانشین بنا گیا تھا حکومت کی لذت سے آشنا ہو ا کہ باپ کی رہائی کا خواہش مند نہ تھا ،اس لئے اس نے قرض ادا کرنے کے کی کوشش نہ کی لیکن اس کے چھوٹے لڑکے نے اپنی املاک فروخت کر کے قرض کی رقم فراہم کیاور شہنشاہ کو آزاد کرایا قسطنطنیہ پہنچنے کے بعد شہنشاہ نے انڈرونیکس کو حکومت کے تمام منصبوں سے فارغ کردیا۔اور اس کی جگہ مینوئل کو تاج و تخت کا وارث قراردیا۔

 صادو جی کی بغاوت Saduji's rebellion

انڈرونیکس کا لڑکا جس کا نام بھی اینڈرونیکس تھا ،اپنے باپ کی اس حق تلفی پر برافرختہ ہوا،اور اس نے مراد کے سب سےچھوٹے لڑکے شہزادہ صادو جی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دونوں مل کر شہنشاہ اور مراد دونوں کو تخت سے اتاریں گے ،اور ان کی جگہ خود فرمارواں بن جائیں گے مراد اس وقت ایشایےکوچک میں تھا،اور صادو جی اس وقت یورپ میں ترکی کا سپاہ اعلیٰ تھا،اس نے مراد کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر فورا بغاوت کا اعلان کردیا،ادھر انڈرونیکس نے بھی نو عمر بازنطینی امراء کی ایک جماعت کےساتھ لے کر شہنشاہ کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کی ،ان شہزادوں کی متحدہ بغاوت نے ایک خطرناک صورت حال اختیار کرلی۔مراد اس خبر کو سنتے ہی یورپ پہنچا شہنشاہ انڈرونیکس کے جرم سے اپنی برات پیش کی اور اس فتنہ کو فرو کرنے کے لئے پوری آمادگی ظاہر کی ، اس نے مراد کی یہ تجویز بھی منظور کرلی کہ گرفتاری کے بعد دونوں شہزادوں کو بینائی سے محروم کردئےجا یئں ،صادو جی کی فوج نے اپنے سلطان کی زبان سے معافی کا وعدہ سن کر باغی شہزادے کا ساتھ چھوڑ دیا۔صادو جی ،اندرونیکس اور نوجوان بازنطینی امرا گرفتار کر کے مراد کے سامنے لائے گئے مراد نے سب سے پہلے صادو جی کی انکھوں میں گرم سیسہ ڈال کر اس کو اندھا کردیا،اور پھر اسے قتل بھی کردیا ،بازنطینی امراء دریائے مارتیز میں غرق کردئے گئے ،انڈرونیکس شہنشاۃ کے پاس بھیج دیا گیا،اس نےحسب وعدہ ان کی انکھوں میں بھی سیسہ ڈال کر اسے بھی اندھا کردیا مگر اس کی تھوڑی سی بینائی باقی چھوڑ دی۔

ان واقعات کا نتیجہ یہ ہوا شہنشاہ قسطنطنیہ کو ایک معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت اس نے دولت عثمانیہ کی باجگزاری ازسرنوتسلیم کرلی عثمانی لشکر میں فوجی خدمت انجام  دینے     کا وعدہ کیا اور ضمانت کے طور پر اپنے لڑکے مینوئل کو مراد کی خدمت میں بھیج دیا ۔

فتوحات بلغاریہ،مقدونیہ،سربیاConquests Bulgaria, Macedonia, Serbia

اگرچہ بلغاریہ نے جنگ مارتیز میں شرکت نہیں کی تھی  تاہم تھریس کی فتح اور عیسائیوں کی شکست نے اس کو بھی نہایت اہم خطرات میں مبتلا ء کردیا   خصوصا اورنہ اور فلیپو پولس پر قبضہ ہونے کے بعد بلغاریہ اور مقدونیہ کی راہ ترکوں کے لئے کھل گئی ،ریاست ہائے بالقان کے باہمی چپقلش اور بغض نے ان کی قوتوں کو کمزور کردیا ،تھا، اس لئے مراد کو شروع میں ان کی متحدہ طاقت سے مقابلہ پیش نہیں آیا،768ھ 1366ء عیسویں اور 771ھ 1369ء کےدرمیان وہ بلغاریہ میں بڑھتا چلا گیا۔اور کو وردوپ تک وادی ماٹیز پر قابض ہو گیا ،سرویا اب تک بلغاریہ کا شریک نہ تھا  لیکن مراد کی ان فتوحات کے بعد اس نے بلغاریہ سے مل کر ترکوں کا سد باب کرنا چاہا،773ھ 1371ء میں لالہ شاہین صوفیا کے قریب سما کوف کے میدان میں بلغاری اور سروی فوج کا مقابلہ کیا ،اور ان کو سخت شکست دی ، اس جنگ کے بعد کو بلقان تک بلغاریہ کا سارا علاقہ سلطنت عثمانیہ مین شامل کر لیا گیا ۔دوسرےسال لالہ شاہین  اور عثمانی فوج کے دوسرے جنرل افروینوس نے مقدونیا پر ھملہ کیا جو اسٹیفن ڈوشن کے زمانے سے سرویا کا حصہ تھا اور اس کے دوسرے شہروں کو فتح کرتے ہوئے دریائے  دروار کو عبور کر کے قدیم سرویا،البانیا اور بوسنیا میں داخل ہوئے ،لازار شاہ سرویہ نے شکست کے بعد مراد کی اطاعت قبول کرلی،بلغاریہ کے بادشاہ سیسمان نے اپنی لڑکی حر   م سلطانی میں پیش کر کے صلح کی درخواست پیش کی  ,چنانچہ بلغاریہ کا وہ حصہ جو کوہ بلقان کے شمال میں واقع تھا اور اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا،اس کی حکومت میں رہنے دیا گیا۔اس کے بعد 783ھ1381ءتک مراداپنے ایشیائی مقبوضات کی تو سیع واستحکام میں مصروف رہا783ھ میں پھر اس نے سرویاکا رخ  کیااور عثمانی فوج نے دریائے دروار کو عبور کر کے مونا ستر پر قبضہ کرلیا،اس کے بعد 787ھ 1385ءمیں صوفیا فتح ہوا  سیسمان کو اپنی ملکہ اور خاندان کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر مراد سے رحم کی درخواست کرنی پڑی،مراد نے سالانہ خراج قبول کر کے اسے بلغاریہ کے تخت پر قابض رہنے کی اجازت دے دی،787ھ1386ءمیں پچس روز کے شدید محاصرے اور سخت جنگ کے بعد نیش پر بھی  جو سرویا کے قلب میں نہایت مضبوط قلعہ تھا ،نیز قسطنطنیہ اعظم کے مولد ہونے کی  وجہ سے خاص اہمیت رکھتا تھا مراد کا قبضہ ہو گیا ،اس نے ہزار پونڈ سالانہ خراج اور عثمانی لشکر کے لئے ہزار سوار دینے کا وعدہ کر کے صلح کرلی۔

امن و اصلاحات کا زمانہ 

A time of peace and reform

778ھ1376ء تا 783ھ1381ءتک کا زمانہ مراد کے دور حکومت میں امن کا زمانہ تھا،اس مدت میں اس نے کوئی جنگ نہیں چھیڑی اور اپنی توجہ زیادہ تر سلطنت کے انتظام واستحکام کی جانب مبذول رکھی،اس نے فوجی نظام میں اصلاحات جاری کیں اور جاگیرداری نظام کا مکمل کیا،مفتوحہ علاقوں میں جاگیریں قائم کر کے سپاہیوں کو دیں اور ہر جاگیر دار کو جنگ کے موقعوں پر ایک یا ایک سے زیادہ مسلح سوار فراہم کرنے کا ذمہ دار بنایا،یہ فوجی جاگیریں چھوٹی اور بڑی دو قسموں کی تھیں ،چھوٹی کو تیمار اور بڑی کو زعامت کہتے تھے اس نے شاہی زمینیں الگ کیں اور مسجدوں نیز دوسرے مذہبی اداروں کے لئے بہت سی زمینیں وقف کردی،مراد نے عیسائی رعایا کی ایک جماعت بھی ادنی فوجی خدمات کے لئے مرتب کی ،اصطبل وغیرہ کی صفائی ،خیموں کو نصب کرنا اور اکھاڑنا ،سامان کی گاڑیوں کی دیکھ بھال  اور اسی قسم کے دوسرے کام ان لوگوں کے فرائض  میں داخل تھے ،مراد ہی کے عہد میں سپاہیوں کے علم کے لئے سرخ رنگ تجویز ہوا ،جو عثمانی فوجوں کا قومی رنگ ہو گیا۔

اناطولیہ میں سلطنت کی توسیعEmpire expansion in Anatolia

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ مراد زمانہ امن میں توسیع سلطنت کی تدبیروں سے غافل نہ تھا ،778ھ 1376ء میں اس نے شہزادہ بایزید کا نکاح امیر کرمان کی لڑکی سے کردیا،عروس کو ریاست کرمیان کا بڑا حصہ اور قلعہ کو تاہیہ جو اپنے مقام کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا تھا،جہیز میں ملااور یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلیا گیا ۔شادی کی تقریب  بروصہ میں بڑی دھوم دھام سے منائی گئی ،اناطولیہ کی تمام ترکی ریاستیوں کے نمائندے اور سلطان مصر کے سفیر شریک ہوئے،یہ لوگ اپنے ساتھ عرب کے سبک رفتار گھوڑے ،یونان کی حسین کنیزیں اور اسکندریہ کے حیرت انگیز ریشمی کپڑے نذر کے طور پر لائے تھے ،من جملہ اور تحائف کے سونے اور چاندی کے ظروف بھی تھے جن میں طلائی اور نقرئی سکے بھرے ہوے تھے نیز پیالے اور طشت تھے جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے ،یہ تمام چیزیں مراد نے اپنے مہمانوں میں تقسیم کردیں لیکن جب عروس نے کرمیان کی کنجیاں پیش کیں تو انہیں اپنے پاس ہی رکھا ۔779ھ1377ءعیسویں میں مراد نے ریاست حمید کے امیر کو امادہ کیا کہ اپنی ریاست کا ایک بڑا حصہ اس کے ہاتھ فروخت کر ڈالے جس میں آق شہر کا ضلع بھی شامل تھا ،ریاست حمید کا یہ علاقہ شامل کرلینے سے سلطنت عثمانیہ کی سرحد ریاست کرمانیہ سے متصل ہو گئی،کرمانیہ اور عثمانیہ کی آویزش ابتدا سے چلی اتی تھی ،اسے دور کرنے کے خیال سے مراد نے اپنی لڑکی نفیسہ کا عقد علاءالدین میر کرمانیہ سے کردیا ،چنانچہ تقریبادس سال یہ صلح قائم رہی لیکن ان میں سے ہر فریق اناطولیہ کے ترکوں کی سرداری کا دعوے دار تھا اور باوجود اس کے کہ ایشیائے کوچک کی متعدد ترکی ریاستیں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکی تھیں ،امیر کرمانیہ کی خود سری شورش انگیزی مراد کو اس کے ایشیائی مقبوضات کی طرف سے مطمئن نہیں ہونے دیتی تھیں ،چنانچہ 779ھ 1377ء میں دونوں میں جنگ چھڑ گئی اور قونیہ میں علاءالدین   کو بری طرح شکست ہوئی مراد اگر چاہتا تو علاءالدین کو قتل بھی کرادیتا ،لیکن نفیسہ کی التجاؤں سے  متاثر ہو کر علاء  الدین کا قصور معاف کر دیا اور اس کی ریاست پھر اسے بخش دی علاء الدین نے مراد کو اپنا آقا تسلیم کیا ، اسی جنگ میں شہزادہ بایزید نے اپنے حملوں کی حیرت انگیزسرعت اور شدت کی بنا پر  ےیلدرم یعنی بجلی کا لقب حاصل کیا ۔اس کے بعد مراد بروصہ واپس چلا گیا اور اب اس کی خواہش تھی کی بقیہ زندگی آرام اور یاد الہیٰ میں گذارے ،چنانچہ اس نے ریاست تکہ  پر حملہ کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کرنے سے انکار کر دیا اور جس فوجی افیسر نے یہ تجویز پیش کی تھی اسے یہ جواب دیا کہ " امیر تکہ بہت کمزور اور غریب اور کمزور ہے مجھے اس سے جنگ کرنے میں شرم آنی چاہیے ،شیر مکھیوں کا شکار نہیں کرتا " لیکن بہت جلد اس بوڑھے شیر کو دوسرے شیروں سے مقابلہ کے لئے پھر سے نکلنا پڑا ۔

مسیحی حکومتوں کا اتحادAlliance of Christian Governments

یورپ میں اس وقت 790ھ 1388ءعیسویں تک تقریبا تمام   قدیم تھریس اور جدید رومیلیا سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکا تھا ،اس کے علاوہ بعض دوسری اہم فتوحات بھی حاصل کر چکی تھی ،ان علاقوں میں ترک اور عرب نو آبادیا ں بھی قائم کردی گئی تھیں اور وہاں کے اکثر باشندے دوسرے مقامات  کو منتقل کر دئے گئے تھے ،ان نو آبادیوں نے عیسایئوں میں ایک خاص بے چینی پیدا کردی ، ینی چری کے لئے ہر سال ایک ہراز عیسائی لڑکوں کے مطالبہ سے اس بے چینی میں برہمی بھی شامل ہوگئی تھی ،ترکون کے خلاف غصہ کا جذبہ پورے جوش کے ساتھ موجود تھا ۔اسے مشتعل کرنے کے لئے جس چنگاری کی ضرورت تھی وہ بھی جنگ قونیہ کے بعد ہاتھ آگئی ،اس جنگ میں عثمانی فوج کے ساتھ سربیا کے دو ہزار سپاہی بھی شریک تھے جو سابق معاہدے کی رو سے طلب کئےگئے تھے ،کوچ سےپہلے ہی مرا د نے اعلان کر ادیا تھا کہ کرمانیہ کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد بھی ریاست کے عام باشندوں کے جان ومال کو ہرگز کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے اور جو شخص اس ظلم کی خلاف ورزی کرے گا وہ سخت سزا کا مستوجب ہوگا لیکن سربین سپاہیوں نے جو یورپ کے دستور کے مطابق دشمن کے ملک میں پہنچ کر ہر قسم کی غارت گری  کو بلکل جائز سمجھتے تھے،اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا اور راستہ میں نہائت وحشیانا طریقہ پر لوٹ مار شروع کردی ،مراد نے ان میں سے بہتوں کو سخت سزائیں دیں اور بعضوں کو قتل بھی کرادیا  ،اس کا یہ فعل فوجی قانون کی رو سے بلکل جائز تھا لیکن اہل سربیا کے لئے یہ سخت اشتعال کا باعث ہوا اور شاہ سربیا نے ،جس کی سلطنت اسٹیفن ڈوشن کے عہد میں بلغراد سے دریائے مارٹیز تک اور بحر اسود سے بحر ایڈریاٹک تک پھیلی ہوئی تھی ،عیسائی حکومتوں کا ایک عطیم الشان اتحاد قائم کر کے ترکوں کے استصال کا بیڑا اٹھایا ، اس اتحاد میں سربیا،بوسنیا،بلغاریہ کی حکومتیں آگے ہوئیں ،البانیا اور ولاچیا ،ہنگری نے پوری قوت کے ساتھ شرکت کی ،پولینڈ نے بھی اپنی فوج بھیجی سلانی قوموں کا اتنا زبردست اتحاد اس سے پہلے کبھی قائم نہیں ہوا تھا ،،سربیا نے مغربی یورپ کی حکومتوں کو شرکت کی دعوت دی لیکن وہ مختلف وجوہ سے ادھر متوجہ نہ ہو سکیں ،صلیبیوں کا قدیم جوش فرو ہو چکا تھا اور ہنوز ارض مقدس کو ترکوں سے آزاد کرانے سوال ہی پیدا نہ ہوا ،علاوہ بریں چودھویں صدی عیسویں کے آخر میں یورپ کی مغربی سلطنتوں  کی اندرونی حالت اور ان کے حکم رانوں کی ذاتی کمزوریاں اس اتحاد کی شرکت سے مانع تھی،لیکن اس وقت تمام یورپ کے متحد نہ ہونے کا سب سے بڑا  سبب  لاطینی کلیسا ء کا وہ شدید رد عمل تھا جس نے کل مغربی سلطنتوں کو دو متخاصم جماعتوں میں تقسیم کردیا تھا ،ایک جماعت پاپائے روما کے زیر فرمان تھی ،اور دوسری اس کے حریف پوپ کے حلقہ بگوش تھی ،جس نے اونیا واقع فرانس کو اپنے جدید کلیسا کا مرکز قراردیا تھا ۔

Kosovo Warجنگ کوسووا

بہرحال سربیا نے مشرقی حکومتوں کے اتحاد سے جو قوت فراہم کرلی تھی وہ بظاہر ترکوں کو یورپ  سے نکال دینے کے لئےکافی تھی ،مراد نے اس اجتماع کی خبر بروصہ میں سنی اور اس کی عمر ستر سال ہوچکی تھی ،مگر وہ عیسائیوں کے مقابلے کے لئے روانہ ہوگیا ،اتحادیوں نے مراد کے پہنچنے سے پہلے ہی بوسنیا میں ایک عثمانی فوج پر حملہ کیا اور من جملہ بیس ہزار ترک سپاہیوں کے پندرہ ہزار کوتہ و تیغ کرڈالا ، اس کے بعد فورا ہی  علی پاشا مراد کے حکم سے درہ دربند کی راہ سے  کوہ بلقان کو عبور کرکے دریائے ڈینوب کی طرف بڑھا۔سلیمان شاہ نے بلغاریا سے بھاگ کر نائکو پولس میں پناہ لی ،لیکن بہت جلد اسے مراد سے معافی مانگ کر صلح کرنی پڑی ،شرائط صلح یہ تھے کہ سلسٹر یا کا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا جائے گا اور بلغاریہ سالانہ خراج ادا کرتا رہے گا سیسمان کی علحدگی کے باوجود شاہ سربیا نے استقلال  کے ساتھ جنگ جاری رکھی اور سلیمان بھی معاہدہ توڑ کر سربیا سے مل گیا ،اس نے سلسٹریا سے دست بر دار ہونے کا اعلان کردیا ، اور ایک فوج سربیا کی مدد کے لئے ورانہ کی ،مراد نے علی پاشا کو اسکے مقابلے کے لئے بھیجا ،سیسمان پھر نائکوپولس میں پناہ گزین ہوا اور یہ اہم قلعہ دوبارہ فتح ہوا ،مراد نے اس مرتبہ بھی سیسمان کی جان بخشی کی لیکن اس کی بار بار غداری کی وجہ سے بلغاریہ کا جنوبی حصہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلیا گیا شا ہ سربیا میں اپنے حلیفوں کے ساتھ برابر ترکوں کا مقابلہ کرتا رہا بلآخر اس نے تمام اتحادی افواج کو جمع کر کے ایک فیصلہ کن جنگ کا تہیہ کیا اور اپنے لشکر کی کثرت و قوت  پر اعتماد کر کے مراد کے پاس آخری جنگ کا پیغام بھیجا ،،چنانچہ پندرہ جون 1389ءعیسویں 791ھ کو کسووا کے میدان میں وہ آخری مقابلہ پیش آیا ،جس نے اتحادیوں کا شیرازہ بھکیر دیا ،اور سربیا کی قسمت کا فیصلہ کردیا ۔

جنگ اختتام کے قریب تھی میلوش کو بیلویچ نامی ایک سربیا امیر عثمانی لشکر کی طرف گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور وہاں  شاہ لالازار کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اس نے یہ بیان کیا کہ مجھے کچھ نہائت اہم باتیں سلطان سے کہنی ہیں ،چنانچہ وہ مراد کی خدمت میں لایا گیا لیکن قدم بوسی کے وقت اٹھ کر اچانک اس نے مراد پر حملہ کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر بھاگنے کی کوشش کی ،لیکن سپاہیوں نے چشم زدن میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے ،مگر سلطان کو کافی کاری ضربیں آئیں تھیں ،اور لگتا تھا کہ سلطان مراد صرف چند گھنٹوں کا مہمان ہے ،اور اسی حالت میں اس نے آخری حملہ کا حکم دیا ، جس نے جنگ کا فیصلہ کردیا ،مراد اپنے آخری لمحات پورے کررہا تھا کہ لازار گرفتار کر کے مراد کے سامنے لایا گیا اس نے اس کے قتل کا حکم دیا اور کچھ دیر بعد خود بھی  جام شہادت نوش کیا۔میلوش کے واقعے سے یہ ثابت ہوا کہ جب بھی کوئی اجنبی شخص مراد کے سامنے لایا جاتا تو دو آدمی اس کے بازو پکڑے رہتے تا کہ وہ فریب نہ کرسکے ، انیسویں صدی سے اس اصول کی پابندی کی جاتی رہی ،تاہم گذشتہ صدی میں بھی غیر ملکی سفیروں کو سلطان کے قریب جانے کی بلکل بھی اجازت نہ تھی ۔

جنگ کوسووا کے بعد پانچ سو برس تک اہل سربیا نے پھر کبھی متحد ہو کر ترکوں سے مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کی ،بہت سے بھاگ کر مونٹی نیگرو "جبل اسود" میں پناہ گزیں ہوئے اور وہاں اپنی آزادی برقرار رکھتے ہوئے ،برابر جنگ کرتے رہے ،بہت سے بوسنیا اور ہنگری میں جا کر آباد ہوئے ،لیکن بہ حثیت ایک خود مختار حکومت کے سربیا کا خاتمہ ہو گیا ،اگر چہ اس کے بعد بھی ستر سال تک سربیا کی عنان حکومت ملکی فرماں رواؤں کے ہاتھ میں رہی تاہم اس کی حثیت محض ایک باج گذار مملکت کی تھی۔



مراد کے کارنامے

 مرادکاعہد حکومت تاریخ آل عثمان کے اہم ترین عہدوں میں سے ہے،اس نے تیس سال تک حکومت کی ،ان میں سے چوبیس سال میدان جنگ میں صرف کئے اور ہر جنگ میں کامیاب رہا،مراد سے پہلے ترکوں کا مقابلہ یورپ میں صرف ایک قوم بازنطینی سے ہوتا رہا ،جن کی سلطنت اپنے زوال کے آخری منزلیں طے کررہی تھی لیکن مراد کی کامیاب فوجیں ان ملکوں میں بھی پھیل گئی جو یورپ کی طاقتور ترین قوموں کے زیر نگیں تھے اور بلغاریہ ، سربیا، بوسنیا پر دولت عثمانیہ کا تسلط قائم ہو گیا ،مراد ہی کے عہد میں اؤل بار آل عثمان اور اہل ہنگری کا مقابلہ پیش آیا ،جس میں  ہنگری کو سخت شکست اٹھا نی پڑی ،مراد کی فتوحات نے سلطنت عثمانی  کے دائرہ اقتدار کو دریائے ڈینوب تک پہنچادیا اور بعض ریاستوں مثلا سربیا، اور بوسنیا سے محض خراج قبول کرنے پر قناعت کی گئی، تاہم تھریس ،مقدونیا اور جنوبی بلغاریا کی ریاستیں مکمل طور پر سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلی گئیں۔

For thirty years, Murad led the Ottomans with such political maneuvers that no mastermind of that era could have surpassed him because we have more information about Muhammad the Conqueror and Suleiman the Magnificent than Murad. The exact location of the Ottoman dynasty's most prominent and successful politician and warrior could never be ascertained when we looked at the difficulties he faced, the problems he solved, and the era of his rule. If we compare the results with the deeds of his more glorious successors, we see that if he is not greater than them, then he is equal to them. The change he made in his lifetime is a marvel of history. One of the most exciting events was that his conquests were to last for five centuries, lasting until the Treaty of Berlin in 1878. "   

   مراد نے مسیحی علاقے فتح کر کے ان میں اسلامی حکومت قائم کی لیکن عیسایئوں کو بہ جبر اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کبھی بھی نہیں کی گئی،بر خلاف اس کے اس نے انہیں پوری مذہبی آزادی دے رکھی تھی ،جس کی واضع شہادت اس خط میں محفوظ ہے جو 787ھ 1385 ء میں یونانی کلیسا کے بطریق اعظم نے پوپ اربن ششم کو لکھا تھا،بطریق نے اقرار کیا ہے کہ مراد نے کلیسا کو کامل آزادی بخش دی تھی ،یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ 761ھ 1370ء عیسو                یں          اور 791 ھ 1389 عیسویں کے درمیان بطریق اعظم کے دفتر میں کوئی ایک شکایت بھی عثمانیوں کے ہاتھوں ارباب کی بد سلوکی کی درج نہیں ملتی۔