بایزید اؤل یلدرمKing Bayezid I Yildirim Fourth Emperior of Ottoman Empire
سن 791ھ تا 805ھ مطابق 1389ءتا 1402ء
مراد کی شہادت کے بعد ہی جنگ
کوسووا کا بھی خاتمہ ہوگیا ،شہزادہ بایزید جب اتحادیوں کو پوری طرح شکست دینے کے
بعد اپنے لشکر میں واپس آیا تو فوج کے تمام سرداروں نے اس کا خیر مقدم تاج و تخت
کے وارث کی حثیت سے کیا لیکن تخت نشین ہونے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ بھائی
شہزادہ یعقوب کو ،جس نے اس جنگ میں شجاعت و بہادری اور فوجی قابلیت کے اعلیٰ جوہر
دکھائے تھے ،فورا قتل کرادیا ،باپ کی لاش ابھی سرد بھی نہیں ہوئی تھی کہ یعقوب کا
وجود سلطنت کے لئے ایک فتنہ ثابت ہوگا اور صادوجی بغاوت نظیر میں پیش کی گئی ،تخت
سلطان کی خاطر آل عثمان میں یہ پہلا قتل
تھا،جس نے آئندہ کے لئے مثال قائم کردی ۔
سربیا سے صلح
اتحادیوں سے شکست کے بعد بھی سربیا نے کچھ دنوں تک جنگ جاری
رکھی لیکن بلآخر اسے صلح کرنی پڑی ،بایزید نے سربیا کی خود مختاری جاری رکھی،اور
صرف اس کے باج گذار ہونے پر اکتفا کیا ،لازار کے جانشین شاہ اسٹیفن نے سالانہ خراج
کے علاوہ پانچ ہزار سپاہیوں کا ایک دستہ
سلطان کی خدمت میں پیش کیا ،نیز اپنی بہن شہزادی ڈیسپینا کو بایزید کے نکاہ میں دے
دیا ، اس نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سلطان کی تمام
لڑائیوں میں وہ اپنی فوج کو لے کر
خود شریک ہوا کرے گا ، چنانچہ آخری وقت تک وہ اس معاہدے پر قائم رہا اور نائکوپولس
اور انگورہ کی معرکہ جنگوں میں اسٹیفن دوش
بدوش لڑتا رہا،اور سربیا فوج کی خدمات حد درجہ موثر ثابت ہوئیں ۔
شہنشاہ سے صلح نامہ
سربیا سے صلح کرنے کے بعد بایزید قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہوا
اور اندرونیکس کو تخت پر بٹھانے کی دھمکی دے کر شہنشاہ پلیو لوگس کو ایک جدید صلح
نامہ پر مجبور کیا،جس نے بازنطینی سلطنت کی رہی سہی حثیت بھی خاک میں ملا دی ، جان
اوراس کے لڑکے مینوئل نے جو تخت سلطنت میں اپنے باپ کا شریک تھا،معاہدہ کیا کہ تیس
ہزار طلائی سکے بطور خراج ہر سال ادا کرتے رہیں گے اور بارہ ہزار کا فوجی دستہ
سلطان کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رہیں گے،ایشائے کوچک میں بازنطینی سلطنت کے مقبوضات
میں سے اب صرف ایک قلعہ فلاڈیلفیا باقی
رہ گیا تھا ، اس صلح نامہ میں بھی بایزید کے نام لکھ دیا گیا لیکن اس قلعہ کے یونانی
افیسر نے شہنشاہ کے حکم کے باوجود قلعہ خالی کرنے سے انکار کردیا ،بایزید نے
شہنشاہ کو مجبور کیا کہ وہ خود اپنی فوج کے ذریعےقلعہ خالی کرادے ،چنانچہ دولت
بازنطینی کے انتہائی زوال کا یہ عبرت ناک واقعہ بھی ظہور میں آیا کہ یونانی سپاہیوں
نے فلا ڈلفیا پر حملہ کردیا اوراسے فتح کر کےسلطان کے حوالے کردیا ۔
اناطولیہ کی فتوحات
ایشیاکوچک کی اکثر ترکی ریاستیں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو
چکی تھیں ،بایزید باقی ماندہ پر بھی قبضہ کرنا چاہا اور سب سے پہلے ایدین کی طرف
بڑھا ،ایدین کو فتح کرنے کے بعد اس نے صادر خان کا رخ کیا ، ان ریاستوں کے امیر نے
بھاگ کر امیر قسطمونی کے پاس پناہ لی اورصادر خان سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلی گئیں
،ایدین ،صادر خان کو فتح کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عثمانی بحری طاقت کی ابتدا ہوئی
ہے ،گو بایزید کے دور میں خاطرخواہ ترکی نہ ہوسکی ،ساٹھ جہازوں کا پہلا عثمانی بیڑا
792ھ 1390ء میں روانہ ہو کر جزیرہ کیوس پر
حملہ آور ہوا ، اس کے بعد بایزید نے سمرنا پر حملہ کیا،یہ شہر یروشلم کے مبارزین سینٹ
جان کا مقبوضہ تھا،بحری قوت کے ناکافی ہونے کی وجہ سے بایزید کو چھ ہفتے کے لئے
سمرنا کا محاصرہ اٹھا لینا پڑا ۔ریاست تکہ
کے ایک حصے پر مراد کے زمانے میں
قبضہ ہوچکا تھا ،بایزید نے بقیہ علاقہ کو بھی اپنی حدود سلطنت میں لے لیا ،اب صرف
دو ریاستیں کرمانیہ اور قسطمونی سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونے سے رہ گئی تھیں ،بایزید
نے کرمانیہ پر بھی حملہ کیا ،حالانکہ کرمانیہ کے امیر علاالدین کی بہن سے بیاہی
ہوئی تھی اور پایا تخت قونیہ کا محاصرا کرلیا ،علاالدین نے کرمانیہ کا ایک ٹکڑا
،جس میں آق شہر بھی شامل تھا ،بایزید کی نذر کر کے صلح کرلی
قسطنطنیہ کا محاصرہ
ان فتوحات کے بعد جن کا اکثر حصہ بغیر کسی جنگ کے ہاتھ آیا
تھا،بایزید پھر درہ دانیال کو عبور کر کے اورنہ چلا گیا ، اس درمیان میں جان پلیو
لوگس نے قسطنطنیہ کے تین گرجے مسمار کرادئے تھے اور وہ ان کے سامان سے نئے قلعے
تعمیر کرنا چاہتا تھا ،بایزید نے اس ارادے سے شہنشاہ کو با خبر رکھا ،چند ہی دنوں
میں جان کا انتقال ہو گیا ، اس کا لڑکا مینوئل جو کچھ عرصہ سے بایزید کے دربار میں
مامور تھا ،شہنشاہ کے انتقال کی خبر سن کر چپکے سے بھاگ کر قسطنطنیہ پہنچا اور
اپنے باپ کا جانشین مقرر ہوا ،بایزید کو یہ بات ناگوار گذری اور اس نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا ،سات مہینہ
تک محاصرہ جاری رہا ،پھر چونکہ بایزید کو بلغاریہ میں شاہ ہنگری کے جارحانہ اقدام
کو روکنے کے لئے فوجیں درکار تھیں اس لیئے اس نے دس سال کے لئے صلح کر کے اپنی محاصرہ اٹھا لیا ،شرائط صلح بہت سخت تھے
،سالانہ خراج کی رقم تیس ہزار طلائی کراؤن مقرر ہوئی ،مسلمانوں کے لئے قسطنطنیہ میں
ایک شرعی عدالت قائم کی گئی ،جس میں بایزید نے ایک ترکی قاضی مقرر کیا اور کلیسائے
مشرق کے اس مرکز میں ایک عالی شان مسجد بھی قائم کی گئی ،جس کے میناروں سے توحید
اسلامی کا اعلان ہونے لگا ،مسٹر گینس نے لکھا ہے
کہ مینوئل نے شہر کے سات سو مکانات بھی مسلمانوں کو دے دیے اور غلطہ کا نصف
حصہ بازیزید کے حوالے کر دیا ، جس میں اس
نے چھ ہزار عثمانی فوج متعین کردی ،شہر کے باہر جو انگور کے باغ اور ترکاریوں کے
کھیت تھے ، ان کی پیداوار کا عشر بھی صلح نامہ کی رو سے عثمانی خزانہ کو دے دیا گیا
، اسی وقت سے قسطنطنیہ کو استنبول کہنا شروع کیا۔
بلغاریہ کی فتح
795ھ 1393ء میں بایزید نے اپنے سب سے بڑے لڑکے سلیمان پاشا کو بلغاریہ کی طرف روانہ کیا ،بلغاریہ کا جنوبی حصہ مراد ہی کے عہد میں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکا تھا ،بایزید نے شمالی حصہ پر بھی قبضہ کرلینا چاہا، مگر شاہ سلیمان نے جم کر مقابلہ کیا لیکن تین ہفتہ کے محاصرے کے بعد پایہ تخت ترنو ا فتح ہوا اور پورے ملک پر ترکوں کا تسلط قائم ہوگیا ،اب شمالی بلغاریہ بھی عثمانی مقبوضات میں شامل کرلیا گیا ،بلغاریہ کا شاہی خاندان ختم ہو گیا ،بلغاریہ کا بادشاہ اعظم جلا وطن کردیا گیا اور بلغاری کلیسا قسطنطنیہ کے یونانی کلیسا کا ماتحت بنادیا گیا اور اس کی یہ محکومی ٹھیک پانچ سو برس تک قائم رہی،بلغاریہ کے جن باشندوں نے اسلام قبول کرلیا ، ان کی زمینیں ان ہی کے قبضہ میں رہنے دی گئی ، باقی سارا علاقہ فوجی جاگیر وں کی شکل میں ترکوں کو دے دیا گیا ۔
کرمانیہ
کرمانیہ اور آل عثمان کی عداوت بدستور چلی آرہی تھی ،مراد
نے اپنی ایک لڑکی کا نکاح علاءالدین سے کر کے تعلقات کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی
لیکن اناطولیہ کے سرداروں آل سلجوقکی قائم مقامی کا حوصلہ امیر کرمانی کو چین نہیں
لینے دیتا تھا ،وہ ہرموقع پر دولت عثمانیہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگا رہتا
،مراد کے عہد میں بھی وہ ایک سے زیادہ بار اپنی دشمنی کا ثبوت دے چکا تھا،اور اب
بایزید کے مقابلے میں بھی اس نے اپنی روش قائم رکھی ،چنانچہ بایزید جب ہنگری فتح
کررہا تھا،علاءالدین نے اناطولیہ کے عثمانی علاقوں پر حملہ کردیا ،انگورہ اور
بروصہ کے درمیان سخت معرکہ ہوا ،جس میں عثمانی فوج کو سخت شکست ہوئی اور تیمور تاش
پاشا جو سالار عسکر اور ایشیائے کوچک میں بایزید کا نائب سلطنت تھا ،علاءالدین کے
ہاتھ گرفتار ہوا ،یہ خبر سن کر بایزید انتہائی سرعت کے ساتھ اناطولیہ پہنچا اور آق
چائی کے مقام پر کرمانی لشکر کو شکست دے کر علاءالدین اور اس کے دو لڑکوں محمد اور
علی کو قید کرلیا ،علاءالدین اور اس کے دونوں لڑکے تیمور تاش پاشا کے حراست میں
رکھے گئے اور اس نے بایزید کی اجازت کے بغیر تینوں کو پھانسی دے دی ، بایزید کو جب معلوم ہو ا تو بہت سخت برہم ہوا
لیکن پھر اس مقولہ کو یاد کر کے خاموش ہو گیا کہ "ایک امیر کی موت اتنی بری
نہیں جتنی ایک صوبے کا نقصان "لارڈ ایورسلے نے اس مقولے کو قرآنی آیت قرار دیا
اور لکھا کہ ہے کہ اس آیت کے بایزید نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ کرمانیہ کی پوری ریاست
پر قبضہ کر کے اسے سلطنت عثمانیہ میں شامل
کر لیا جائے ،اسلام دشمنی میں کافر اس حد تک بھی جاسکتے ہیں جو بیسویں صدی کے انگریز
مورخ کے قلم سے نکلا ہے ،قرون وسطیٰ کے مسیحی مفرتوں کو بھی نہ سوجھا ہوگا ،بہرحال
کرمانیہ پر بایزید کا قبضہ ہو گیا اور ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں کی قائم مقام کے
لئے اب آل عثمان کا کوئی حریف باقی نہ رہا۔
سلطان بایزید
ان فتوحات کے بعد امیر کا لقب جسے اب تک عثمانی فرماں رواں
اختیار کرتے چلے آئے تھے ،بایزید کو اپنے
شان و مرتبے کے مقابلے میں کم تر معلوم ہونے لگا ،چنانچہ اس نے مصر کے عباسی خلیفہ
کی اجازت سے سلطان کا لقب اختیار کیا ،خلیفہ کو اگرچہ کوئی اقتدار حاصل نہ تھا
،تاہم اسلامی دنیا میں اس کی مذہبی حکم رانی اب بھی تسلیم کی جاتی تھی اور بایزید
جیسے بادشاہ کو بھی جو اپنی سطوت میں یورپ اور ایشیا کے بڑے سے بڑے فرمان روا ؤں
کا حریف تھا ،سلطان کا لقب کو جائز قرار دینے کے لئے خلیفہ ہی کا فرمان حاصل کرنا
پڑا ۔
اس موقع پر لین پول عام مورخوں سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آل سلجوق میں عثمان پہلا شخص نہیں ہے جس نے سلطان کا لقب اختیا ر کیا ،بلکہ برٹش میوزیم اور دوسرے مقامات پر عثمانیہ کے جو سکے محفوظ ہیں ، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اورحان خان اور مراد اؤل نے بھی اپنے سکوں پر سلطان کا لقب کندہ کراتے تھے ،عثمان کے نام کا کوئی سکہ موجود نہیں ،یہاں تک کہ سلطان علاءالدین سلجوقی نے عثمان کو یہ اختیار دیا تھا مگر ،تاہم عثمان نے یہ حق استعمال نہیں کیا ۔اور غالبا پہلا سکہ اورحان کے عہد میں جاری ہوا ،پس بایزید کے لئے سلطان کا لقب صرف اس بنا پر ایک نئی چیز ہو سکتا ہے کہ اس نے اس کے لئے خلیفہ کا لقب بھی اختیار کیا۔
1 Comments
Very good post about history
ReplyDelete