صلیبی اتحاد

جنگ کوسووا کے بعد سربیا کی تسخیر نے ہنگری کی آزادی کو تخت خطرہ میں ڈال دیا تھا،خصوصا نائکوپولس ،ویدین اور سلسٹریا  کے فتح ہو جانے کے بعد ترکوں کے لئے ہنگری کا راستہ کھل گیا تھا ان کے متواتر حملوں سے عاجز آکر شاہ ہنگری نے یورپ کی عیسائی سلطنتوں سے مدد کی درخواست کی،چوں کہ ہنگری کلیسائے روما سے وابستہ تھا اس لئے پوپ نے بھی اس کی سرپرستی کی اور ترکوں کے خلاف ایک صلیبی جنگ کی تبلیغ شروع کردی ،اب تک ترکوں کے خلاف عیسائیوں کا جو اتحاد قائم ہوا تھا ،اس  میں مغربی یورپ  کی حکومتوں نے کوئی حصہ نہیں لیا تھا ،اس مرتبہ شاہ کی خاص کوشش یہ تھی کہ فرانس بھی اس کی مدد کے لئے اپنی فوجیں روانہ کرے  اتفاق سے اس زمانے میں فرانس اور اور انگلستان میں جنگ موقوف تھی  ، جس کی وجہ سے فرانس کو اس اتحاد کی شرکت میں تامل نہ ہوا ،فرانس اور برگنڈی کے پر جوش نوجوان بھی مشرقی یورپ کے میدانوں  میں  اپنی شجاعت کے جوہر دکھانے کے کے لئے بے چین تھے ،طے یہ پایا کہ ڈیوک اف برگنڈی کا لڑکا کونٹ ڈی نیورس ایک فوج لے کر شاہ ہنگری کی مدد کے لئے روانہ ہوا اور وہی فرانسیسی اور دوسرے سوار دستوں کا سالار عسکرمقرر کیا جائے ،ان بہادروں کے پیش نظر صرف ہنگری کی مدد نہ تھی بلکہ منصوبے یہ تھے کہ ہنگری میں بایزید کی وقت کو توڑنے کے بعد قسطنطیہ کی طرف بڑھیں اور پھر درہ دانیال کو عبور کر کے شام میں داخل ہوں  ،ارض مقدس پر قبضہ کریں اور یروشلم پر اور درگاہ شریف کو مسلمانوں کے ہاتھ سے آزاد کرائیں ،غرض شہرت کی خاطر مبارزین جوق در جوق اکھٹا ہونے لگے ،شاہی خاندان اور فرانسیسی امراء کے ممتاز اشخاص جو فن سپہ گری میں خاص شہرت رکھتے تھے،اس مقدس مہم میں شریک ہوئے   ، یہ منتخب فوج 798ھ سن 1396ء  میں فرانس سے روانہ ہوئی  راستہ میں جرمنی سے گزرتے ہوئے جرمنی کے شاہی خاندان کے بعض افراد مثلا فریڈرک ،کانٹ آف ہونزولرن اور روڈس کے مبارزین سینٹ جان کا افسر اعلیٰ  بھی   ایک مضبوط دستہ لے کر شامل ہو   گیا   ،  ان کے علاوہ شاہ نے   بویریا  اور  اسٹائریا   کے سوار دستے   بھی   فراہم کر لئے گئے  تھے ،مغربی  یورپ  کے  مسیحی مجاہدوں کی   مجموعی  تعداد     دس    بارہ ہزار تھی اور وہ سب کے سب  اپنی بہادری کے نشے میں اس قدر شرسار      تھے                       کہ ان کا دعویٰ   تھا کہ   اگر آسمان بھی گرنے لگے تو وہ اپنے نیزوں کی نوک  پر  اس کو روک  لیں گے  ،شاہ نے اپنی مملکت سے جس  قدر  فوج  ممکن تھی  ،فراہم کی  اور امیر ولاچیا کو بھی  اس صلیبی  اتحاد   میں شریک  ہونے  پر آمادہ  کیا ،  حالان کہ   تھوڑے ہی دنوں پہلے   ولاچیا اور  دولت عثمانیہ  میں صلح ہو چکی تھی   اور امیر ولاچیا   سالانہ  خراج  ادا   کرنے کا معاہدہ   کر کے   اپنی خود مختاری   برقرار  رکھ  سکا تھا ، مسیحی  فوجوں  کی مجموعی تعداد   ایک   لاکھ  تھی   ۔

ابتدائی فتوحات  

اتحادی فوجیں   ہنگری میں اکٹھا ہونے کے بعد اور ولاچیا کی راہ سے اور کچھ سربیا   کے راستہ  سے عثمانی   مقبوضات کی طرف روانہ ہوئیں   ،چوں کہ سربیا کا بادشاہ    بایزید   کا حلیف تھا   اور کامل   وفاداری   کے ساتھ   اپنے  معاہدے  پر قائم  تھا،اس   لئے  ان   مسیحی مجاہدوں نے   سربیا  مجاہدوں نے  سربیا  کے باشندوں   کے   ساتھ  بھی  جو تمام   تر عیسائی تھے  ،وحشیانہ    قتل و غارت  گری  کا سلوک  کیا ،جو وہ ترکوں کے ساتھ  کرتے تھے ،سب سے پہلے  شاہ نے   ویدین پر  حملہ کیا  اور اسے فتح کر کے   ارسودا پر قبضہ    کرتا ہوا  نائکوپولس  کی  طرف  بڑھا  ،نائکوپولس  پہنچ کر  فورا اس کا محا صرہ کر لیا ،  نائکو پولس کے کمانڈر  یو غلان بے نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا اور محاصرہ کی انتہائی شدت کے باوجود حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ  دشمنوں کا مقابلہ کرتا رہا ، اور اسے یقین تھا کہ  بایزید اس کی مدد کو ضرور پہنچے گا ،چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بایزید جو اس درمیان میں اپنی بہترین فوج کے ساتھ روانہ ہو چکا تھا ، سرعت کے ساتھ محاصرے کے سولہویں دن نائکو پولس پہنچ گیا۔

          مسیحی لشکر میں قمار بازی اور مے خوری کا ایک ہنگامہ برپا تھا ، اس نشہ کو ابتدائی  فتح کے جرعات نے اور بھی تیز کردیا تھا ، عیسائیوں خصوصاَ  فرانسیسیوں کو گمان بھی  نہ تھا کہ  بایزید اس قدر جلد آن پہنچے گا ، وہ علانیہ کہتے تھے  کہ  اسے ان کے  مقابلہ میں آبنائے باسفورس  کے عبور  کرنے کی بھی  جرات  نہ ہو گی  ، وہ ترکی فوجوں کا ذکر حقارت سے کرتے تھے  اور اسے اپنا حریف مقابل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے ، ان کو اپنی کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ انہوں نے یہ بھی دریافت کرنے کی مطلق کوشش نہ کی کہترک آ تو نہیں رہے  ہیں ، ان مجاہدین صلیب کے ساتھ ان کی طوائفیں بھی آئیں تھیں جن کی عشوہ طرازیوں نے فوجی کیمپ کو نشاط محل بنا رکھا تھا۔

معرکہ نائکو پولس

23 ذی قعدہ798ھ  بمطابق 24 ستمبر 1396ء عیسویں کو کانٹ ڈی نیورس اپنے فرانسسی  ساتھیوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتا اسے یہ اطلاع ملی کہ  ترک فو        ج قریب آگئی ہے  ،سب کے سب فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور لڑائی کے لئے ہتھیار باندھنے لگے ، وہ چاہتے تھے کہ بلا تاخیر ترکوں پر حملہ کر دیں ، سجمنڈ عثمانیوں کے اصول جنگ سے واقف تھا ، وہ جانتا تھا کہ سب سے اگے غیر مرتب فوج کے دستے ہوتے ہیں جو دشمن  کے پہلے حملے کا زور توڑنے کے لئے آگے رکھے جاتے ہیں ،اصلی اور باقاعدہ فوج ان کے پیچھے ہوتی ہے ، اسی بنا پر اس نے فرانسیسی فو ج کو مشورہ دیا کہ ان بے قاعدہ سواروں پر حملہ کر کے اپنی قوت کو ضائع نہ کریں ، بعض فرانسیسی کمانڈروں نے اس سے اتفاق کیا ، لیکن دوسروں نے اس بد گمانی کی بنا پر کہ سجمنڈ پہلے خود حملہ کرنا چاہتا ہے ، یہ گوارا نہیں کیا کہ فراسیسی دستے ہنگری کی فوج سے پیچھے رہیں اور اس طرح اس کی مخالفت کی ، فرانس کے نو عمر بہادروں نے بھی اس رائے کی پر جوش مخالفت کی اور اسی جوش میں ان ترک قیدیوں کو ،جو ان کے قبضے میں تھے ، اور جنہوں نے امن کے وعدے پر ہتھیار ڈالے تھے ، قتل کر ڈالا ۔

بایزید نے عیسائی لشکر سے تھوڑے فاصلے پر اپنی خاص فوج کو روک کر پہلے بے قاعدہ فوج کو دشمن کے مقابلے میں روانہ کی اور ان کی مدد کے لئے ینی چری کا ایک دستہ  اگے بڑھایا ،فرانس کے نو عمر  لڑکے ترکوں کے اس  اصول سے بلکل نا واقف تھے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ عثمانیوں کی اصلی فوج بے قاعدہ فوج کے پیچھے ہوتی ہے ،سجمنڈ نے انہیں سمجھانے کہ بہت کوشش کی لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سنی اور پوری قوت کے ساتھ ترکوں کے ترک فوجوں پر حملہ آور ہوئے ، آسانی کے ساتھ  اسے شکست دیتے ہوئے  وہ آگے بڑھے اور پھر ینی چری اور سواروں کی صفوں کا چیرتے ہوئے جنہیں بایزید نے پہلے روانہ کیا تھا ، اسی جوش میں اتنی دور نکل گئے  کہ باقی ماندہ اتحادی فوجوں سے ان کا تعلق منقطع ہو گیا ،دفعتہ ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے واپس ہو نے کی کوشش کی ،مگر بایزید کی چالیس ہزار فو ج کا سامنا کرنا پڑ گیا ، اب ان کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہ بچا تھا ، آگے سلطا ن کی فوج تھی اور پیچھے سے وہ ترکی دستے جن کو وہ جنہیں وہ منتشر کر چکے تھے ، دوبارہ  متحد ہو کر ان کی طرف بڑھ رہے تھے ، یہ دیکھ کر اب جان  بچانا ان کے لئے ناممکن ہو گیا وہ مایو سانہ طور پر نہایت بے جگری سے لڑے اور ان چھ ہزار  بہا دروں میں سے تقریبا  سب کے سب مارے گئے  ، جو بچ گئے وہ قیدی بنا لئے گئے ، صرف چند ایک ایسے تھے جو بھاگ کر عیسائی لشکر میں پہنچ سکے ، اس کے بعد بایزید سجمنڈ کے مقابلے کے لئے آگے بڑھا ، اسے دیکھتے ہی اتحادی فوجوں  کے   دونوں بازو فورا بھاگ کر کھڑے ہوئے ، البتہ قلب لشکر نے  جو ہنگری  ،بویریا ، اور اسٹاریہ کے دستے پر مشتمل تھا اور جس کی کمانڈ خود سجمنڈ کررہا تھا ،جم کر مقابلہ کیا لیکن یہ جنگ تین گھنٹہ سے زیادہ قائم نہ رہ سکی ،اتحادیوں کو بری طرح شکست ہوئی ، اور ان کے ہزاروں سپاہی کام آئے اور دس ہزار گرفتار کر لئے گئے ، سجمنڈ چند سرداروں کے ساتھ بمشکل جان بچا کر بھاگا  ، اس جنگ میں اسٹیفن کی سربیا فوج سے جو بایزید کی حمایت میں لڑ رہی تھی  عثمانی فوج کو بڑی مددملی ۔

فتح کے بعد بایزید نے میدان جنگ کا معائنہ کیا ، اس وقت اسے مقتول ترکوں کی تعداد کا اندازہ ہوا ، نیز یہ معلوم کر کے کہ ابتدائے جنگ میں جن ترکوں نے مغلوب ہو کر جان بخشی کے وعدے پر ہتھیار ڈالے تھے ، عیسائیوں نے نقص عہد کر کے قتل کر ڈالا ، اس کا رنج اور غصہ اور بھی زیادہ ہوا اور اس تہیہ کر لیا کہ ان کے خون کا بدلہ عیسائی قیدیوں سے لے کر رہے گا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا دوسرے روز صبح اس نے تمام عیسائی قیدیوں کو جن کی تعداد دس ہزار تھی ، اپنے سامنے کھڑا کر کے ان کے قتل کا حکم دیا قیدیوں میں کانٹ ڈی نیورس بھی تھا ، بایزید نے اسے قتل سے مستثنیٰ کر دیا اور اسے اجازت دی کہ قیدیوں میں سے چوبیس شرفا ء کو منتخب کرلے اور ان سب بھی جان بخشی کردی ، اس کے بعد قتل شروع ہوا جو چار بجے شام تک جاری رہا ، جب ہزاروں قتل ہو چکے تو  امرائے     سلطنت کی درخوست پر بایزید نے جلادوں کو ہاتھ روکنے کا حکم دیا اور جو قیدی بچ رہے تھے ان میں سے ایک خمس سلطان کا ایک حصہ علحدہ کر نے کے بعد بقیہ ان مسلمان سپاہیوں کو تقسیم کردیے ،جنہوں نے ان کو جنگ میں گرفتار کیا تھا ، کانٹ ڈی نیورس اور اس کے چوبیس ساتھی ایک سال تک زیر حراست رہے لیکن بایزید نے ان کی حثیت کے مطابق انہیں عزت احترام کے ساتھ رکھا ، اور جب ان کا زر فدیہ فرانس سے آگیا تو انہیں وطن جانے کی اجازت دے دی ، رخصت کے وقت جب یہ لوگ بایزید کے حسن و سلوک کا شکریہ ادا کرنے پہنچے ،تو اس نے جان کانٹ ڈی نیورس کو مخاطب کر کے کہا :

John: ! I know that you are the son of a great leader and a powerful nobleman in your country, you are young and you have many years of hope left, maybe people will be shocked at the failure of your first attempt on the battlefield. Blame it and then to remove this accusation and regain your fame and good name then you will form another powerful army and bring you to fight against me, if I am afraid of you I swear to you and your companions that you will never take up arms against me, but no, I will not ask for the same oath, unless I am glad that if you Go back to your country and gather another army and get ready for a new battle, what I am saying at the moment, copy it from anyone you want because I have always fought for my achievements as well as my victories. I am ready and eager to expand. "